بھارتی میڈیا کے رجحانات


ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے، با ہمی امن خطوں میں ترقی کے در وازے کھولتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نظریات بعض دفعہ نئے مقاصد وضع کرتے ہیں، مفادات کا ٹکرا ؤ نا ہو تا تو شاید پاکستان کے بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، اس ٹکراؤ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کسی اور نے نہیں مس سروجنی نا ئیڈو نے قرار دیا تھا، سروجنی نائڈو کانگریس کی ایک قد آور لیڈر تھیں، اور جناحؒ کی طرز سیاست سے خو ب آگاہ تھیں، پھر گاندھی نے ملک میں ہندو عددی بر تری کے زور پر جنوبی ایشیا میں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دی، سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ اپنی کتاب ”جناح انڈیا پارٹیشن انڈیپنڈنس“ میں تقسیم کا ذمہ دار سردار ولبھ بھائی پٹیل اور پنڈت جواہر لال نہرو کو قرار دیا۔

پھر تقسیم کے بعد خلیج میں بتدریج اضا فہ ہوا، سنتے تھے کے 1965 کی جنگ سے پہلے بھارتی فلمز پاکستان میں لگتی تھیں (جو بہت بعد میں دوبارہ لگنا شروع ہوئیں ) بھارتی میڈیا پر ایک شور مچا ہوا ہے، آج خطے کی خوشحالی کی سوچ کا نعرہ کہاں گیا پاکستان کا میڈیا پاکستان کی داخلی سیاست میں مگن ہے مگر بھارت میں ایسا نہیں بھارتی میڈیا کیا سوچ رہا ہے وہا ں کیا چیزیں رواج پارہی ہیں، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنا ان کی خواہش ہے، اس کو ایک دہشت گر د ملک قرار دلوانا ان کا ارمان ہے، ادھر بھارتی حکومت اسلحے کی نئی خریداریوں میں اپنے ٹیکس دہندہ کا پیسہ خرچ رہی ہے اور پاکستان پر ایک کے بعد دوسرا سفارتی حملے بھی جاری ہیں، بھارت کے میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو ایک غیر ضروری جلد بازی کا احساس ہو تا ہے شاید یہ نئے محاذ بھارت کی پیش قدمی ہے اور یا ممکنہ سرد جنگ کی کو گرمانے کا خیال، مگر یہ سب کام اتنی جلدی میں کیوں کیا جارہا ہے اور اس جلدی سے کیا نتیجہ نکالنا مقصود ہے، شاید بھارت کے پالیسی ساز چین اور پاکستان کے ممکنہ معاشی تعاون اپنے لیے ایک خطرے کے طور پر لیتے ہیں، وہاں ان کی اپنی دفاعی اور خارجہ تیاری، ہتھیاروں کی تفصیلات پر پیکجز میں یہ سوالات اٹھاے جارہے ہیں کہ ہماری د فاعی تیا ری کیا ہے؟

ہماری ضروریات کیا ہیں اور کیا حکومت وقت اور سپاہ ازلی دشمن کی سازشوں کا ادراک رکھتے ہیں، رکھتے ہیں تو کس حد تک تیار ہیں، حملہ کیوں نہیں کرتے، کرتے ہیں تو کیا اور کس نو عیت کی، جنگی ہیجان کاتا ثر نہیں پورے کے پورے پروگرام جنگ کے ماحول میں ڈھلے ہوئے ہیں، اب بھارت کی سپاہ کن خطوط پر جارہی ہے، اس کی تفصیل زیرے نظر لنک پر دیکھیں جاسکتی ہیں، بنیادی طور پر میڈیم یعنی زبان کی تقسیم اپنی جگہ مگر دہلی اور مہاراشٹر بیسڈ میڈیا کا فرق خاصہ واضح ہے۔

دہلی بیسڈ چینلز نسبتا معتدل رویہ رکھتے ہیں جبکے مہاراشٹر یا ممبئی میں بیسڈ میڈیا جارحانہ رویہ رکھتا ہے اور زیادہ جنگ کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے ( 1 ) بھارتی چینلز پر صبح شام نشر ہونے والی خبریں، نیوز پیکجز، اور پروگرام روزانہ کی بنیا د پر پاکستان مخالف ہیں، جنگی تیاری ایک خا ص مو ضوع ہے، پھر اگر پروگرام کے شرکاء میں اگر کوئی پاکستانی بیٹھا ہو پھر تو اس کا اللہ ہی حا فظ، تمام بھارتی شرکاء گفتگو بشمول پروگرام میزبان پاکستانی شرکا پر الزامات کی بارش کر دیتے ہیں، وہ جیسے ہی جواب دینے کی کوشش کرے اس پاکستانی کی بات چیت میں تو تواتر سے رخنہ اندازی کرنا ایک عام سی بات ہے، پھر بھارتی میڈیا کا پاکستانیوں سے واردات کا طریقہ نرالا، طارق فتح (جو ایک زمانے سے پاکستان سے مفرور ہیں، کینیڈین شہریت کے حامل ہیں اور بھارتی شہریت حاصل کرنے کے متمنی ہیں ) پاکستانی شرکا ء، نظر یہ پاکستان، اسلامی تاریخ کا مذ اق اڑا کر، بھارتیوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے پاکستانی شرکاء پر بھر طو فان بد تمیزی کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں، کبھی جگتیں مار کر، کبھی جملے کس کے، اسلامی کرداروں کی تو ہین کے مرتکب ہو تے رہتے ہیں۔

پھر کوئی حکمران بی جے پی کا اپنا فرض ادا کر تا ہے، پھر ایک بھارتی ریٹا ئرڈ پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں، طارق فتح کا کام عام طور پر اسپو ئلر کا ہی ہو تا ہے یعنی پاکستانیوں کے لیے کام خراب کرنے کا کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ اچھا یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ بھارتی سنجیدہ پروگرام میں ان صاحب کو بلا لیتے ہیں پھرجنرل بخشی جیسے مار کھائے ہوئے جنرل اپنی پٹی ہوئی داستان کا واویلا کرتے پائے جاتے ہیں، یہ وہی صاحب ہیں جن کی یو ٹیوب پر کارگل جنگ میں پٹائی کی روداد کی کہانی ان کی اپنی زبانی خا صی مشہور ہے۔

یہ تو با قا عدہ جنگ پر کنٹرول روم جیسا ما حول بنا کر بیٹھے باتیں بنا رہے ہیں جیسے اس پروگرام کی شوٹنگ کے بعد جنگ شروع ہو نے جارہی ہے، پروگرام کا نام وار روم ہے جس میں بھارت کی اگلی دفاعی خریداریوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی اور بھارتی فوج کی جانب سے بلند پہاڑی درروں ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کو لے کر ممکنہ جنگی تیار یوں کو مو ضوع بنا یا گیا، یہ پروگرام این ڈی ٹی وی ( نئی دہلی ٹی وی ) سے نشر ہوا اورلنک پر دیکھا جا سکتا ہے ( 2 ) ۔ بھارتی فوج میں افسران میں فوج چھوڑنے کا رجحان بھی کافی زور پکڑ رہا ہے۔ بھارتی میڈیا کو سو شل میڈیاپر آنے والی ان ویڈیوز کی بھی پریشانی ہے جو بھارتی حا ضر سروس فوجیوں کی طرف سے آئے روز شیئر ہوتی رہتی ہیں۔

اب ایک اور پروگرام کا نمونہ پیش خدمت ہے پروگرام کا نام ہے یُدھ ( یعنی جنگ) زی نیوز پر ( 3 ) نئے طیاروں کا ڈیمانڈ نوٹ لگتا ہے جیسے بھارتی وایو سنہہ ( ہندوستانی فضائیہ ) اور بھارتی وزارت دفاع بس اسی پروگرام کا انتظار کرہی تھی، جبکہ ظاہر ہے پیسہ بہت ہے انڈیا کی سرکار کے پاس اور دنیا کا ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہمارا پڑو سی بھارت اب افلاس اور بھوک سے بالکل نا آشناء بھارتی میڈیا حالیہ کشیدگی میں دو طیارے اور ایک پائلٹ گنواکر بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ایک نیا زاویہ جو اس کھیل میں شامل ہو چکا، اب بڑی امریکی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں بھی اشتہارات بھارتی چینلز پر نظرآرہے ہیں، ٹی آر پی تو کافی مل رہی ہے، ظاہر ہے ایک خوا ہش ہے پھر بھارتی ٹی وی چینلز پر امریکی ہتھیار ساز کمپنیوں کے اشتہار بھی پچھلے دنوں دیکھے گئے ہیں۔

یہ بات ظاہر کر تی ہے کہ بھارتی حکومت امریکی ہتھیار خریدنے کے ساتھ نا صرف اپنے عوام کو مسلسل نئی خریداریوں سے آگاہ رکھنا چاہ رہی بلکہ امریکی کمپنیاں ہندوستان کے میڈیا پر اثر بنانے کی خواہش کا عملی مظاہر ہ کر رہے ہیں۔ ( 4 ) ۔ کیا یہ اتفاق ہے، یا، ایک مکمل جنگی مہم جو ئی کا ارادہ یہ تو وقت ہی بتا ئے گا تاہم بھارت جو ہتھیار خرید رہا ہے یا بنا رہا ہے اورجن میں بوئنگ کا تعاون شامل ہے اس کی کچھ تفصیل قارین کے لیے پیش ہے، ان ہتھیاروں میں اپا چی گن شپ، چینو ک ہیوی لفٹ ہیلی کاپٹر اور سی۔

17 گلوب ماسٹر میڈیم لفٹ ٹرانسپورٹ طیارہ اور پی۔ 8 بحری نگہداشت آبدوز شکن طیارہ یہ بات تو صرف بوئنگ کی تھی، اب دیگر امریکی اسلحہ اس کے علا وہ ہے سیکورسکی رومیوآبدوز شکن (بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کاورژن) اور جیسے ایک بچہ بہت بڑے شاپنگ مال میں جاکر مختلف چیزوں کی طرف لپکتا ہے یہی حالت بھارت کی ہتھیار خریدنے کے معاملے میں جاری ہے۔

ستا ئیس فروری کی فضائی جھڑپ پر بھارت میں یہ جنگی جنون اپنی بلند ترین سطح پر چلا گیا تھا، ابھی نندن کو واپس لانے کے لیے بھارتی باؤلے ہو ئے جارہے تھے، جس طیارے کو تباہ کر نے کا دعویٰ ابھی ابھی نندن بھی نہیں کیا تھا بھارتی میڈیانے اس کا کریڈٹ بنا کہے اس کے حصے میں ڈال دیا تھا، پاکستان نے عالمی قوانین، اور جذبہ خیر سگالی کا خیال رکھتے ہوئے اس کو واپس کرنے کا اعلان کیا تو بھارت میں اس کو ایک دباؤ سے تشبیہ دی بھارتی میڈیا میں (یاد رہے کلبھوشن بھی اسی طرح مگر دوسرے الزام میں پاکستان میں قید ہے اور ظاہر کہ پاکستان نے اس پر بھارت کی ایک نہ مانی ) لیکن جب ابھی نندن کو واپس کیا گیاتو بھارت نے اس واپسی کو بھارت کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جو کہ قطعاً نہیں۔

یہ وہ اشا ریے ہیں جو بتا تے ہیں کہ بھارت کا میڈیا پاکستان کے راست اقدامات کو بھارت کا دباؤ کا نتیجہ ثا بت کرتا ہے اور جہاں پاکستان اپنے حساب کتاب سے چلے تو پریشان ہوجاتا اور واویلا بڑھا دیتا ہے۔ مطلب ان کے سامنے پاکستان میں کچھ مثبت نہیں، پھر ایک پرانی بات بھارتی فلمز میں پاکستانیوں کو کچھ عجیب حالت میں دکھا یا جاتا ہے جیسے غیر ضروری طور پر سب کے سب مذہبی اور قبا ئلی کی طرح دکھا یا جاتا ہے، میری ذاتی جتنی بھی بات چیت سو شل میڈیا پر اپنے بھارتی دوستوں کے ساتھ ہوئی اس میں مجھے یہ تا ثر ملا کہ یہ بھارتی شہری اپنے میڈیا کی رپورٹس سے متاثر ہو کر پاکستان کو مخصوص قبائلی اورگھٹن زدہ ملک سمجھتے ہیں جہاں نہ آرٹ ہے نہ کلچر نہ کچھ ایسا جو کسی بھی ترقی پسند ملک میں ہو۔

ہمارے فنکار، گلو کار تو اب سرحد پار نہیں جارہے لیکن بھارتی ویب سائٹس پر راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم کو ہندی گلو کار لکھا گیا ہوتا جیسے یہ بھارت میں پیدا ہو ئے ہوں، لڑائی ہندی سے نہیں ہندی محض زبان ہی ہے جیسے ساری زبانیں تاہم لڑائی اس غلط تا ثر ہے جو قائم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کھیل کے سوال پر بھی بھارتی میڈیا یہی لائن لیتا ہے کہ جب پاکستان ہمارے فوجی مارتا ہے، دہشت گردی کرتا ہے تو ہم نہیں کھیلیں گے اور ساتھ ہی بڑے ٹورنامنٹس میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ، ہاکی کبڈی، پاکستان کے ساتھ تو یہ طرز عمل جاری ہے۔

کھیل کے علا وہ فن و ثقافت کے دیگر میدانوں میں بھی بھارت کا طرز عمل فرار کا ہے، پاکستانی ادیب بھارت میں کسی کانفرنس میں شرکت نہیں کر پاتے، کچھ عرصے قبل پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھارت میں اپنی کتاب کی رونما ئی کی تقریب کے غرض سے گئے، ان کے میزبان سریندھر کلکرنی جو خود حکمران جماعت کے رکن تھے لیکن اعتدال پسند ہونے کی سزایہ ملی کہ ان پر انتہا پسندوں نے حملہ کیا اور ان کے منہ پر سیا ہ رنگ مل دیاگیا، آفرین ہے وہ اسی حا ل میں تقریب رونما ئی میں پہنچے، لیکن بجائے میڈیا ان کی حمایت کر تا الٹا کی حب الوطنی سوالیہ نشان بن گئی۔

یہی سوال بعد میں بھارتی میڈیا نے پاکستان فلم میں کام کرنے کے بعد اوم پوری سے اٹھے، ان کو بھی دھمکیاں ملیں، اور پھر غیر معمولی حالت میں ان کی موت بھی سوالیہ نشان رکھتی ہے، ممبئی حملوں کے بعد اے سی پی ہیمنت کرکرے کے قتل کے بعد بھی خطرناک سنا ٹا ہے، جو ظاہر کرتا بھارتی میڈیا سنسر شپ کے دباؤ کا شکار ہے، بھارتی ادیب، فنکاروں کھلاڑیوں کے یہاں ان کے آنے پر پابندی نہیں لیکن ان کے پاکستان آنے پر سوال بھارت میں سوال اٹھنے لگتے ہیں، ان کو روکا بھی جاتا ہے، بھارت میں ان کو دھمکیاں بھی ملتی ہیں، دوسری جانب پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہمارا میڈیا اس سارے معاملے میں بہت سنجیدہ کردار نبھا رہا ہے، اس معا ملے پر حکومت اور اپو زیشن، مذہبی اور غیر مذہبی تفریق بھی پاکستان میں نظر نہیں آتی جیسا ہم بھارت میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱)http://thewire.in/71373/economic-decision-making-within-indian-armed-forces-deteriorating/
۲)https://www.youtube.com/watch?v=Z0EufmeN-qw
۳)https://www.youtube.com/watch?v=pXpa7SiUpY0
۴)https://www.youtube.com/watch?v=r6Z5lJ43Lm0
https://www.youtube.com/watch?v=02VX-wmepAA


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).