فلمی ہیروئن سے دیہاتی رومانس
”میں ایسی ہی ہوں، شوٹنگ ادھر قریب ہی ہو رہی ہے، میرا سین نہیں تھا۔ میں شروع سے کراچی میں رہی ہوں ناں تو مجھے یہ پنجاب کے کھیت بہت اچھے لگتے ہیں اور آج تو آسمان پر اتنے گھنے کالے بادل ہیں، اتنے اچھے موسم میں تھوڑا انجوائے کرنا چاہتی تھی“ جینا نے بے تکلفی سے کہا۔
اچانک بادل گرجا اور بارش ہونے لگی۔ جینا کی خوشی دوچند ہو گئی۔ وہ اٹھی اور بانہیں پھیلا کر بارش میں نہانے لگی۔ میں جو برآمدے کی چھت کے نیچے جانے کا سوچ رہا تھا وہیں رک گیا۔ وہ بارش کو انجوائے کر رہی تھی۔ بچوں کی طرح خوش ہو کر گھوم رہی تھی۔ میں بھی اس کے پاس چلا آیا۔
”بارش بہت تیز ہے، اندر چلیں؟“ میں نے کہا۔
”نہیں، مجھے مزا آ رہا ہے، کراچی میں رہتے ہوئے میں نے ایسی بارش بہت کم دیکھی ہے“ ۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔
وہ بارش میں بھیگتی رہی پھر بارش ہلکی پھوار میں تبدیل ہو گئی۔ ہوا چل رہی تھی موسم بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔
”آپ نے بارش سے تو لطف اٹھا لیا مگر اس کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں“ ۔ میں نے دھیرے سے کہا۔ اس نے چونک کر خود پر نظر ڈالی۔ بارش سے اس کے مہین کپڑے جسم سے چپک گئے تھے اور سی تھرو بن چکے تھے۔
”اوہ! یہ تو میں نے سوچا نہیں تھا“ وہ بولی۔
”کیسا اتفاق ہے، میں نے بھی نہیں سوچا تھا“ میں بول اٹھا۔
”خیر کوئی بات نہیں، میرے خیال میں مجھے اب واپس جانا چاہیے“ اس نے مسکرا کہا۔ ”میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے، میرا گھر گاؤں کے بالکل شروع میں ہی ہے، زیادہ دور نہیں، وہاں جا کرکپڑے بدلیں، ماں کے ہاتھ کا کھانا کھائیں پھر آرام سے واپس چلی جائیں“
”ہوں آئیڈیا برا نہیں ہے، ٹھیک ہے چلو“
”ایک منٹ۔ میں آپ کو ایک چادر دے دیتا ہوں، براہِ کرم اوڑھ لیں، گاؤں کے کسی نوجوان نے آپ کو دیکھ لیا تو خواہ مخواہ اس پر بجلیاں گر جائیں گی“
وہ میری بات سن کر ہنس پڑی۔ ”ٹھیک ہے لاؤ“
گھر پہنچے تو ماں نے سب پہلے ہمیں دیکھا۔ ظاہر ہے وہ اسے نہیں پہچان سکیں۔ ”ماں یہ مہمان بڑی دور سے آیا ہے، کھانے میں کیا ہے؟“
ماں نے اس کے سر ہاتھ پھیرتے ہوئے دعائیں دیں اور بولی۔ ”پتر مہمان کو گھر لانا تھا تو پہلے بتاتا، میں نے تو دال پکائی ہے“
آوازیں سن کر کمرے سے میری ایک بہن باہر نکلی۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تو کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ”جینا“ خوشی اس کے منہ سے دبی دبی چیخ کی صورت نمودار ہوئی۔ باقی دو نے دروازے سے جھانکا اور پھر تینوں بھاگ کر ہمارے پاس آ گئیں۔
”آپ واقعی جینا ہیں؟“ چھوٹی نے حیرت اور خوشی سے پوچھا۔
”اتفاق سے“ جینا مسکرائی۔ چھوٹے بھائی نے دیکھا تو بھی ایک بار تو پلکیں جھپکنا بھول گیا۔ بہر حال میری بہن ثمن نے اسے اپنے کپڑے دیے، وہ نہانے گئی تو سب میرے آس پاس جمع ہو گئے۔ یہ کہاں ملی؟ کیسے ملی؟ ہمارے گھر کیسے آئی؟ بیسیوں سوال تھے۔ ”اسی سے پوچھ لینا“ میں نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔ ماں نے چھوٹے بھائی کو فوراً دیسی مرغ ذبح کرنے کا حکم دیا۔
جب جینا نہا کر باہر آئی تو مرغ پکانے کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ ایک بہن ماں کے ساتھ کھانا بنانے میں لگ گئی۔ دوسری لسی بنانے لگی۔ ہم کمرے میں بیٹھ گئے۔ بے نظیر بھٹو کا دور تھا اور ہمارے گاؤں میں نئی نئی بجلی آئی تھی۔ میں نے پنکھا آن کر دیا۔ ثمن نے لسی کا جگ اور گلاس لا کر سامنے رکھا۔ جینا اپنی پذیرائی پر کافی خوش تھی۔ اس نے لسی چکھی اور ثمن کو تعریفی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”بہت مزے کی ہے“ ثمن یوں خوش ہوئی جیسے کوئی میڈل مل گیا ہو۔
کھانا لگا دیا گیا۔ ابا عین اسی وقت گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے جینا کو پہچان لیا۔ اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا اور دعائیں دیں۔ در اصل وہ روایتی ابا نہیں تھے کہ فلمی ہیروئین کو اپنے گھر میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھائیں۔ بڑے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ پھر چائے کا دور چلا۔ بہت ساری محبتیں سمیٹ کر وہ ہمارے گھر سے نکلی۔ میں اسے چھوڑنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔
جینا بہت خوش تھی۔ ہم پیدل ہی کچی سڑک پر رواں دواں تھے۔ جینا نے آفر کی کہ میں شوٹنگ دیکھنے آؤں لیکن میں نے منع کر دیا۔ میں کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا کیوں کہ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ میں شوٹنگ دیکھنے جاؤں اور اس کے قریب نہ جاؤں۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ ایک بار پھر مجھ سے ملنے آئے گی۔
اسے چھوڑ کر میں واپس آ گیا۔ عجیب سا احساس ہو رہا تھا جیسے مجھ سے کچھ چھن گیا ہو۔ رات کو سونے کے لیے لیٹا تو نیند روٹھ گئی۔ ذہن کے پردے پر جینا کی تصویریں چل رہی تھی۔ میں نے دل کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی۔ جینا ایک فلم سٹار ہے۔ اس کے لاکھوں فین ہوں گے۔ میں بھی ایک عام سا فین ہوں لیکن دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔ دل چاہتا کہ وہ میری بن جائے۔ سوچتے سوچتے رات کے پچھلے پہر بڑی مشکل سے آنکھ لگی۔
اگلا دن بہت بیزاری کا تھا۔ کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ ایک ایک پل صدیوں میں گزرتا تھا۔ شام کو میں صحن میں رکھی چارپائی پر بیٹھا تھا جب دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تھا وہ اندر آئی تو دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ تینوں بہنیں خوش ہو کر اس کے پاس آ گئیں۔ ”میں ثمن کی بنائی ہوئی لسی پینے آئی ہوں“ جینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماں نے اس کی بلائیں لیں۔
چارپائیوں پر نئی چادریں بچھا دی گئیں۔ محفل جم گئی۔ ماں نے مجھے یاد دلایا کہ جیرا چھٹی پر ہے۔ جیرا ہمارا ملازم تھا۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے دودھ دوہنا ہو گا۔ ہمارے صحن کے دو حصے تھے۔ بیچ میں ایک دیوار تھی۔ دوسری طرف چند جانور رکھے تھے۔ میں اٹھا تو جینا بول اٹھی ”کہاں چلے؟“
- ٹیبل لیمپ - 12/09/2023
- آخر مہنگائی کا توڑ مل گیا - 02/09/2023
- عورت مارچ: یہ تو ہو گا - 10/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).