فلمی ہیروئن سے دیہاتی رومانس


”تم بھی آ جاؤ کوئی نئی بات سیکھ لو گی“ میں بالٹی لے کر دوسرے حصے میں آ گیا اور گائے کا دودھ دوہنے لگا۔ ”سیکھ لو کل کام آ سکتا ہے، گاؤں میں عورتیں بھی دودھ دوہ لیتی ہیں“ جینا میری بات پر غور کیے بغیر میرے قریب بیٹھ گئی اور دلچسپی سے مجھے دیکھنے لگی۔ ”رکو اب میں دودھ نکالتی ہوں“ اس نے کہا۔ میں کھسک کر ذرے پرے ہوا۔ جینا نے گائے کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو گائے زور سے دم ہلانے لگی اور ہلنے لگی۔ جینا ڈر گئی۔ ”مجھے لگتا ہے یہ بھاگ جائے گی“ وہ بولی۔

میں نے گائے کو تھپکا۔ جینا نے اپنے کومل ہاتھوں سے اس کے تھنوں کو دبایا، اس سے کیا ہوتا۔ اس نے دو تین بار کوشش کی مگر ناکام رہی۔ ”چھوڑو یہ تمہارے بس کی بات نہیں“

”نہیں میں پھر کوشش کروں گی“ وہ ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔
”رہنے دو ذرا منہ کھولو“

اس کے دہن نے تازہ دودھ کا ذائقہ چکھا۔ ”کیسا ہے؟“
”ٹھیک ہے مگر تمہارا نشانہ چوک سکتا ہے، بہتر ہے کہ میں گلاس سے پی لوں“ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد اسے سوئیاں اور گرم دودھ پیش کیا گیا۔ کھانے کے لیے روکنا چاہا مگر اسے جلدی تھی۔ وہ چلی گئی۔

اس کے بعد بھی ہماری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ شوٹنگ دو تین ہفتے جاری رہی۔ اسے جب بھی موقع ملتا تھا وہ مجھ سے ملنے ضرور آتی تھی۔ کبھی صبح کو اور کبھی شام کو۔ میں نے اسے گاؤں کی کئی روائیتی چیزیں دکھائیں۔ جیسے جیسے شوٹنگ کا شیڈول اختتام کو پہنچ رہا تھا دل کی بے چینی بڑھتی جاتی تھی۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی ہے۔ میں اسے دل کی بات بتانا تو چاہتا تھا مگر ہمت نہیں ہوتی تھی۔ میں عقل سے سوچتا تھا تو مجھے یہ ناممکن بات لگتی تھی۔ وہ ایک مشہور ایکٹرس تھی اور گاؤں کا عام سا نوجوان تھا۔ مگر جب وہ سامنے آتی تھی تو عقل منہ لپیٹ کر کہیں چھپ جاتی تھی اور عشق سر چڑھ کر بولتا تھا۔ ایسی ہی ایک شام ہم کھیتوں کی سیر کرتے کرتے دور نکل آئے اور نہر تک پہنچ گئے۔

ہم نہر کے کنارے چلنے لگے۔ ”میرا دل چاہ رہا ہے نہر میں تیروں مگر افسوس کہ مجھے تیرنا نہیں آتا“ اس نے پانی کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ نہر بہت گہری ہے، یہاں تو تیرنے کا سوچنا بھی مت، کئی لوگ ڈوب چکے ہیں“ میں نے فوراً کہا۔ وہ یونہی شوخی سے کنارے کے اور قریب ہو گئی۔ وہاں سے پاؤں پھسلتا تو وہ ڈھلان سے نہر میں گر سکتی تھی۔

”کیا کر رہی ہو؟“ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ ”اس طرح کا مذاق مت کرو“ پھر نہ جانے کیا ہوا وہ یک دم میرے بازوؤں میں آ گئی۔ چند لمحوں کے لیے ہوش و خرد جیسے ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ الگ ہوئی تو میرے لبوں پر کچے پھلوں کا ذائقہ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر چپ چاپ ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ میں بھی کچھ نہ بولا وہ بھی خاموش رہی۔

آخر جب ہم پل تک پہنچے تو میں کہہ اٹھا۔ ”کل تم چلی جاؤ گی؟“
”ہاں! جانا ہی ہو گا، فلم کا بقیہ حصہ کراچی میں ہی شوٹ کیا جائے گا“
”اچھا“ میں خاموش ہو گیا۔

”میں تمہیں اپنا فون نمبر دے کر جاؤں گی، تم آؤ گے ناں مجھ سے ملنے؟“ وہ بولی۔
دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ مغرب میں سورج ڈوب رہا تھا۔ میں اسے چھوڑ کر آ گیا۔

جانے سے پہلے اس نے اپنا نمبر دے دیا تھا۔ یہ موبائل فون سے پہلے کا زمانہ تھا۔ پی ٹی سی ایل کا نمبر تھا۔ وہ چلی گئی۔ دو تین دن میں اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس سے ملنا بالکل ایک خواب جیسا تھا۔ ہمارے گاؤں میں فون بھی نہیں تھا۔ تین دن بعد میں نے قریبی قصبے میں جا کر فون کیا۔ اس کی ملازمہ نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ شوٹنگ پر تھی۔ اگلے دن پھر فون کیا۔ وہ نہ ملی۔ تیسری بار اس کی آواز سنائی دی تو جان میں جان آئی۔

دل پھر ہواؤں میں اڑنے لگا۔ ”میں نے کئی بار فون کیا، تم کہاں تھیں؟“
”ہاں میں شوٹنگ میں مصروف تھی“ اس کی مدھر آواز آئی۔

”جینا میں کراچی آ رہا ہوں، میں اب مزید بے چینی برداشت نہیں کر سکتا، میں تم سے سب کچھ کہنا چاہتا ہوں“
”کب؟ میں ابھی چند مہینے بہت مصروف ہوں“

”میں تو آج ہی آنا چاہتا ہوں، سوچ رہا ہوں کل کی ٹرین پکڑ لوں“ میں نے کہا۔
”کس سے باتیں کر رہی ہو بے بی؟“ دور سے آتی ہوئی آواز مردانہ تھی۔

”کچھ نہیں یار! ایک بندہ ہے میرے گھر میں نوکری کی بات کر رہا ہے“ جینا نے شاید ریسیور پر ہاتھ رکھا تھا لیکن پھر بھی مجھے اس کی آواز سنائی دے گئی۔

”تو رکھ لو بے بی، کسی غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا، مگر اس فون کی جان تو چھوڑ دو۔“ اس بار آواز قدرے قریب سے آئی تھی۔ میرے دل میں ایک الاؤ سا جل اٹھا۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ریسیور سے کسی کو چومنے کی آواز آئی اور لائن کٹ گئی۔ اب صرف ٹوں ٹوں کی آواز آ رہی تھی۔ میرے ہاتھ سے بھی ریسیور گر پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3