جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟


کون کہتا ہے کہ ملک خداداد میں نفسا نفسی اور نا اتفاقی کا عالم ہے۔ یقین مانئیے! جتنا اتفاق اور یک جان ہونے کی روایت اس ملک میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر تو شاید ہی آپ کو دنیا کے کسی اور ملک میں ملے۔ ہر فرد ہی قائم ربط ملت کے سنہرے اصول پر اس قدر سختی سے کاربند ہے کہ کوئی مجھ جیسا نا عاقبت اندیش اس فرد کو بیرون دریا کرنے کی کوشش کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ (کیونکہ لینے کے دینے ہی نہ پڑ جائیں )

بلکہ درحقیقت یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہر فرد ہی اپنی ذات میں انجمن لئے گھوم رہا ہے۔ کسی کو کچھ کہہ کر دیکھیں تو سہی۔ آپ اس بظاہر فرد واحد کی اجتماعیت دیکھ کر ششدر نہ رہ جائیں تو بات ہے۔ ہاں تنہا وہ ہی رہے گا جس کی تعریف کی جارہی ہوگی۔ (ہے نا عجیب بات؟ )

راقم کو اس عجیب و غریب حقیقت کا ادراک تب ہوا جب ایک ہی وقت میں ایک صاحب کی تعریف اور تنقید کا مسئلہ درپیش آیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دوست جو کہ میری ہی طرح درس وتدریس سے وابستہ ہیں سے گفتگوکے دوران ان کی تعریف کی گئی تو کمال عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے تمام کامیابیوں کو اللہ کا فضل قرار دیتے ہوئے اپنے کھاتے میں وصول پایا اور راقم کو یہ بھی بآور کروانے کی کوشش کی کہ یہ مقام ایسے ہی حاصل نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لئے ان کی شب وروز کی محنت شاقہ کا بہت دخل ہے۔

جو کہ بد قسمتی سے آج کل کے اساتذہ نہیں کر پا رہے۔ (سر تسلیم خم ہے۔ واقعی ایسا ہی ہوگا) لیکن جب گفتگو کے اگلے مرحلے میں ایک موضوع سے اختلاف کرتے ہوئے راقم نے ان پرتنقید کی غیر معمولی جسارت کی تو وہ فرد ِواحد یکا یک ایک طبقہ میں بدل گئے اور فوراً سے پیشتر ربط ملت سے مستفید ہوتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے کہ

”اچھا تو آپ کے نزدیک آج کل کے اساتذہ اپنی نوکریوں سے زیادہ ٹیوشنز پر توجہ دے رہے ہیں؟ “

راقم اس الزام پر گڑبڑا کر فقط اتنا ہی کہہ سکا کہ

حضرت بات تو صرف آپ کی ہو رہی تھی یہ ”آج کل کے اساتذہ“ کو کیوں بیچ میں گھسیٹ لائے؟

”لو تو اور کیا۔ میں اساتذہ میں شامل نہیں کیا؟ “

”بجا فرمایا حضرت آپ نے۔ بلاشبہ آپ اساتذہ میں ہی شامل ہیں لیکن ابھی کچھ لمحوں قبل ہی تو آپ کامیابی کو انفرادی محنت قرار دے کر قبول کر رہے تھے اور جب تنقید کا وقت آیا تب آپ نے اس تنقیدکو اجتماعی بوجھ سمجھ کرپوری اساتذہ کمیونٹی پرڈال دیا۔ “

لیکن افسوس یہ جملہ میں صرف سوچ سکا کہہ نہ سکا کیونکہ ان سے لڑائی میرا مقصد ہر گز نہ تھا۔

بخدابظاہر عام سی نظر آنے والی اس سہہ جملہ گفتگو نے جیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پھر کڑی سے کڑی ملانے پر ملک خداداد میں گزشتہ عرصہ دراز سے ہونے والے غیر معمولی واقعات اور حادثات کا سرا بھی اسی سہہ جملہ گفتگو سے جا کر ملا کہ یہ صرف ان دوست کا طریق نہیں تھا بلکہ بدقسمتی سے یہ ہماری اجتماعی سوچ بن چکی ہے کہ ہم لوگ عدم برداشت کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں اور کسی بھی صورت اپنی غلظی ماننا تو دور کی بات ہے یہ تصور کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ہماری کسی غلطی کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم فوراً سے پہلے ہی اپنے متعلقہ قلعہ میں پناہ گزیں ہو کر قلعہ کی سپاہ کو حملے کے منہ توڑ جواب کی تیاری کا حکم دے دیتے ہیں اور پھر غلطی کی نشاندہی کرنے والا بچ کے دکھائے۔ اب ایسے میں اگر کوئی کہے کہ ملک میں نا اتفاقی اور نفسا نفسی کا عالم ہے تو غصہ نہ آئے تو اور کیا ہو۔

کسی استاد کو کچھ کہہ دیں تو ملک کی تعلیم اور تعمیر پر حملہ، مولوی کو کچھ کہہ دیں تو دین اسلام اور اس کے عقائد پر حملہ کی گستاخی، جج یا وکیل کو کچھ کہہ کر دیکھیں تو عدل و انصاف پر قدغن، سیاست دان پر انگلی اٹھائیں تو جمہوریت پر شب خون، ڈاکٹر کو کچھ کہہ دیں تو مسیحائی جیسے مقدس پیشے پر حملہ، کسی فوجی کو کچھ کہہ دیں تو ملک سے غداری کا فتویٰ۔ غرض ہر کوئی کسی نہ کسی طبقہ کے قلعہ میں محفوظ اور باقی سب غیر محفوظ ہیں۔

اس طرح کے ماحول میں آپ کسی بھی شخص کو اس کی ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ فوراً مذہب یا فوج جیسے کسی بھی شعبہ کی آڑ میں خود پر ہوئی یہ تنقید بہت ہی سہولت سے ان اداروں کی طرف موڑ کرآپ کو ملک و ملت کا مجرم ٹھہرا دے گا۔ ایک عام آدمی تو مذہب، عدلیہ یافوج جیسے قابل احترام طبقات پرکسی بھی قسم کی تنقید کا سوچ بھی نہیں سکتا کجا کسی گستاخی یا بے ادبی اور غداری جیسے بھاری بھرکم الزام کا سر پر لینا۔

الغرض تان وہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ اب کون کہہ سکتا ہے کہ ملک میں بھائی چارہ اورباہمی اتفاق کا فقدان ہے۔ ہر فرد اپنی ذات میں انجمن لئے پھر رہا ہے کہ نہیں۔ ڈر لگتا ہے کسی کو کچھ بھی کہتے ہوئے کہ خدا معلوم ہم سے انجانے میں کسی محترم اور مقدس طبقے کی گستاخی ہی نا سرزد ہو جائے کیونکہ سزا بھی خیر سے آن واحد میں مل جاتی ہے کہ کیا کبھی کہیں اتنا جلدی انصاف کسی کو ملا ہوگا۔

راقم مندرجہ بالا سطور سے عوام الناس کو مطلع بلکہ خبردار کرنا چاہتا ہے کہ بقول غالبؔ ”جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں“ کی عملی تصویر بنتے ہوئے کسی بھی جگہ پرتنقید کرنے سے پہلے اچھی طرح تسلی کر لیں کہ آپ کسی اکیلے فرد کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں یا میری طرح انجانے میں ایک بھرپور موج کو بیرونِ دریا سمجھنے کی حماقت تو نہیں کر رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).