دانشوروں سے اجتناب!


انسان کی خوشی، سکون اور صحت پر تحقیق کرنے والے مشہور امریکی ادارے اَن لمیٹڈ بلیسنگز (unlimited blessings) نے 1987 میں ایک تحقیق کی جس میں ثابت ہوا کہ اگر انسان پیکنگ میں پیدا ہوتا تو اس کے بنانے والے نے پیکٹ پر انتباہ ضرور لکھنا تھا کہ ”اس پراڈکٹ کا دل کانچ کا بنا ہے اس لئے  اس کے دل کو ٹوٹنے سے بچائیں، ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھیں“۔  اگر یہ جملہ آپ کے دل میں چبھا ہے اور آپ عش عش کر اٹھے ہیں تو محتاط ہو جائیں آپ دانشوروں کے چنگل میں آچکے ہیں یا پھر جلد ہی آنے والے ہیں کیونکہ سچ یہ ہے کہ اَن لمیٹڈ بلیسنگز نامی کوئی امریکی ادارہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسی تحقیق ہوئی ہے۔  اگر آپ کو یہ جملہ پڑھ کر بدھا کا لاء آف امپرمانینس(law of impermanence)، فلسفی زینو کا stoicism یا پھر رسل کی کتاب، ”خوشی کی تلاش“ ذہن میں آگئی ہے تو مبارک ہو، آپ خیر سے دانشور بن چکے ہیں، مہربانی فرما کر اپنی زندگی جیسے جی چاہے گزاریں لیکن خدارا دوسروں کو اپنے خیالات سے پریشان مت کریں۔  شکریہ

آج کل کے دور میں انسان کو مہنگائی کے بعد سب سے زیادہ پریشان دانشور کرتا ہے۔  اس لئے  خوش رہنے کے لئے  ضروری ہے کہ آپ دانشوروں سے دور رہیں۔  اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ کو علم ہوکہ ایک عام انسان اور دانشور میں کیا فرق ہے۔ کسی بھی دانشور کی پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ مشکل اور گہری بات کرے گا یا پھر آسان بات کو مشکل بنا کر پھراسے گہرا بنانے کی کوشش کرے گا۔ اگر کسی دانشور کو یہ کہنا ہو کہ آج میں نے کراچی جانا ہے تو وہ کہے گا، ”نسل انسانی ترقی کی اس معراج پر پہنچ چکی ہے کہ اب آدم خاکی ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے ساحل سمندر پر اتر سکتا ہے۔

 بندہ ناچیز آج اڑن کھٹولے پر کولاچیوں کے مسکن جانے کا ارادہ رکھتا ہے“۔  اسی طرح ایک سچا دانشور پریشان کن کہاوتوں اور محاوروں سے کسی غریب کی جان نکلانے اور اسے جاہل ہونے کا احساس دلانے کی حیران کن صلاحیت کا مالک ہوتا ہے۔  چند دن پہلے میری ایک دانشور سے ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ امریکی صدر کا مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی خواہش اڑھائی بکائن میاں باغ میں، کانی حرم محل خانے میں ہے اور ویسے بھی ٹرمپ اڑھائی ہاتھ کی ککڑی نو ہاتھ کا بیج ہے۔

  یہ سن کر مجھے اپنی کم علمی سے زیادہ اپنی بے بسی پر دکھ ہوا۔  جہالت کی خفت مٹانے کے لئے  میں نے انہیں بتایا کہ مجھے تو ٹرمپ کی باتیں ٹھیک لگتی ہیں۔  انہوں نے مجھ پر کڑی آنکھ ڈالی اور گویا ہوئے،  ”محترم حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہمیں اس کی کڑھی میں کوئلا نظر آنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرا کئیے ہوئے ہے“۔  دانشور سے ملاقات کے بعد مجھے آدھے سر کا درد ہوگیا اور ساتھ وہم بھی کہ کم از کم میرا آدھا دماغ ظالم دانشور کھا گیا ہے۔ اس لئے  اپنے دوست فراز کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

فراز کے ذکر سے یاد آیا کہ اس کا کہنا ہے، جب دانشورنے بھی زندگی میں عام انسانوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا ہے تو پھر دانش کا فائدہ؟  فراز کے والد چونکہ دکاندار ہیں اس لئے  وہ ہر شئے کو فائدے اور نقصان میں تولتا ہے۔  ڈاکٹر صاحب میرے سر کا معائنہ کر رہے تھے کے اچانک انہیں کھانسی آگئی۔ فراز فوراًبولا، ”ڈاکٹر صاحب اگر آپ کوبھی کھانسی ہے تو ڈاکٹری کی تعلیم کا فائدہ؟ “۔  ڈاکٹر صاحب نے تھوڑی دیر حیرت سے ٖفراز کی طرف دیکھا اور پھر آبدیدہ ہوگئے۔

انہوں نے روہانسی آواز میں ہمیں بتایا کہ ان کا بیٹا بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتا تھا، اللّہ بخشے پچھلے سال گھر کی بجلی ٹھیک کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے وفات پاگیا۔ حالانکہ ایم اے انگریزی کرنے کے بعد اس نے وائرنگ کا کورس بھی کیا ہوا تھا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ دانشور حضرات ہمیشہ علم کے حصول کے لئے  سرگرداں رہتے ہیں۔  جو لوگ انجنئیرنگ کرنے کے بعد ویلڈنگ میں ڈپلومہ بھی کرلیتے ہیں یا وہ ڈاکٹر جو فارغ وقت میں ایکسرے مشین کی مرمت کا کورس کر لیتے ہیں وہ عام انسان بالکل نہیں ہوتے، قسم سے دانشور ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں گذشتہ پندرہ سالوں میں جتنے دانشور الیکٹرانک میڈیا اور ٹوئٹر نے پیدا کئیے ہیں اتنے شاید آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنی ہزار اور کیمبرج یونیورسٹی نے اپنی آٹھ سو برس کی زندگی میں پیدا نہیں کئیے۔  کیا زمانہ تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی تھی اور پھر کہیں جاکر چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا تھا اور کیا زمانہ آگیا ہے کہ ابھی صحیح طرح سے موچھ نہیں نکلی ہوتی کہ نور حسین اپنا نام این ایچ قصوری رکھ کر دانشور بن جاتا ہے۔

ان دانشوروں پر قدرت نے اتنا انعام کیا ہوا ہے کہ یہ کتاب پڑھے بغیر اس پر تنقید کر سکتے ہیں اور پڑھنے کے بعد سمجھ نہ بھی آئے تب بھی گھنٹوں اس کی تعریف کرسکتے ہیں۔  ان دانشوروں کو تمام علوم بشمول معاشیات، شماریات، سیاسیات، ادب، تاریخ، فلسفہ اور فلکیات پر عبور حاصل ہے۔  ان کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کون کدھر سے چاند چڑھا رہا ہے، کس کا سورج ڈوب رہا ہے اور کس کا نصف النہار پر ہے۔  ان دانشوروں کے پاس ملک کے ہر معاشی مسئلے کا حل بھی موجود ہے۔

ایک دفعہ ایک دانشور نما اینکر ٹی وی چینل پر بتا رہے تھے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا سبب پانچ ہزار کا نوٹ ہے۔  اسے ختم کر دیا جائے تو ملک خوش حال ہو سکتا ہے۔  پھر انہوں نے اپنے دانشورمہمان سے پوچھا کہ پانچ ہزار کا نوٹ ختم ہو جائے تو کیا ہوگا؟ مہمان نے جواب دیا بیگم سے مار پڑے گی اور کیا ہوگا۔ وہ سوچے گی میں پتہ نہیں کس پر پانچ ہزارروپے خرچ کر آیا ہوں۔  میرا دوست جمیل شام سے رات تک ٹی وی چینلز دیکھتا رہتا ہے۔ ہم دوستوں نے ایک دن اس سے پوچھا، ”تم روزانہ دانش کی باتیں سننے کے باوجود اتنے جاہل کیوں ہو؟ “ اس نے ہمیں بتایا کہ چونکہ شام کا وقت خوش ہونے کا ہوتا ہے اس لیے وہ دانشوروں کو سنتا نہیں بلکہ ٹی وی کی آواز بند کرکے ان کے چہروں کے اتار چڑھاؤ اور حرکات و سکنات دیکھتا ہے۔  جمیل کہتا ہے،  ”دانشور کو سننا عذاب جب کہ آواز بند کرکے اس کو دیکھنے سے بہتر کوئی اینٹرٹیمنٹ نہیں“۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).