رسول پاکﷺ نے ایک بزرگ شخصیت کو جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کی نوید سنائی تھی: اوریا مقبول جان


روزنامہ پاکستان کے مطابق معروف کالم نگار اوریا مقبول جان نےکچھ عرصہ قبل بڑا انکشاف کیا تھا کہ ایک بزرگ شخصیت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر کرتے ہوئے ان کو آرمی چیف بننے کی نوید سنائی تھی۔

اوریامقبول جان نے اپنے کالم میں لکھا کہ روز حشرجواب دہی کاخوف رسول اکرم ﷺکی نظروں سے گرجانے کی شرمندگی اور خود اپنے ہی کہے گئے الفاظ سے پلٹ جانے کی ہزیمت یہ تینوں ایسی کیفیات ہیں کہ اگر میں یہ تحریر نہیں لکھوں گا تو آئندہ سچ بولنے کا حوصلہ بہت مشکل سے پا سکوں گا۔ یہ تحریر میں خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات اور سیدالانبیاﷺ کی احادیث میں دی گئی ہدایت سے پیداہ شدہ آخرت کی جواب دہی کے احساس سے لکھ رہا ہوں اور میرا یہ ایمان ہے کہ اس تحریر کی اس وقت جتنی ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی اتنی نہ ہو۔

وہ لکھتے ہیں کہ میں مصلحت کے تحت خاموشی بھی اختیار کر سکتا تھا کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا اور گواہی کو نہ چھپاو اور جو اسے چھپا لے وہ گناہ گار ہے۔ اور تم جو کرتے ہو اسے اللہ خوب جانت اہے۔

اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ یہ احکامات اس وقت اور سخت ہو جاتے ہیں جب بپھرا ہوا ہجوم اور مسند پر بیٹھے ہوئے لوگ بغیر کسی تحقیق کے کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے لگ جائیں اور ان کے پیروکار ان پراندھا اعتماد کریں اور لوگ ان کے خوف سے خاموش رہیں رسول اللہ ﷺ نے ایسی گواہی اور الزام کے بارے میں فرمایا وہ آدمی بدترین گواہ ہے جو ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کے لیے خود بخود حاضر ہو جاتا ہے۔ اوریا مقبول جان نے کہا کہ مجھے ایک ایسے خواب کا ذکر کرنا ہے جو آج سے پانچ سال پہلے ایک بزرگ نے دیکھا اور وہ پورا ہو گیا۔

اوریا مقبول جان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ بیسویں سے اکیسویں گریڈ میں جانے کے لیے ہمیں سٹاف کالج لاہور میں چھ ماہ کا ایک کورس کرنا پڑتا ہے اس کورس میں میرے ساتھ ایک بریگیڈئیر بھی تھے جو جرنیل پرموٹ ہونے کے لیے یہ کورس کر رہے تھے اس کے بعد وہ آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹرکے سربراہ مقرر ہوئے۔ ان کے ایک اور بریگیڈئر دوست ایبٹ آباد میں بلوچ رجمنٹل سنٹر کے سربراہ تھے۔

یہ اس دورکی بات ہے جب جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ مقررہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا تھا۔ بلوچ رجمنٹل سنٹر کے بریگیڈئر ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اہل نظر کا رابطہ رہتا ہے اور وہ خود بھی بہت باشرع اور متقی انسان ہیں۔

ایک دن میرے دوست بریگیڈئرصاحب ان سے ملنے ایبٹ آباد گئے تو وہاں کراچی کے ایک مشہور استاد بھی موجود تھے جن کی شہرت ہی تقویٰ و ریاضت کی بنیاد پر تھی انہوں نے وہاں اپنا ایک خواب سنایا اور کہا کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی محفل دیکھی جس میں حضرت عمرفاروقؓ فوج کے کسی باجوہ جرنیل کو ساتھ لے کر آئے اور بیٹھ گئے۔ رسول اکرم ﷺ نے اسے کچھ عطا کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو جرنیل نے بائیں ہاتھ سے اسے لینا چاہا جس پرحضرت عمرفاروقؓ نے ان سے بایاں ہاتھ پیچھے کروا کر دایاں ہاتھ آگے کروایا۔ رسول اکرم ﷺ جو کچھ عطا کرنا چاہتے تھے وہ دے دیا گیا۔  کیا عطا کیا گیا؟ اس کے بارے میں صاحب خواب کو کچھ علم نہیں۔

اوریا مقبول جان اپنے کالم میں کہتے ہیں کہ ایسی باتوں پر فوجیوں کے ایک دم کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دونوں جرنیلوں نے اس وقت حساب لگایا تو تین چار جرنیل تھے۔ تصویریں دکھائی گئیں جس پر ان پروفیسر صاحب نے خواب میں نظر آنے والے جرنیل کو پہچان لیا کوشش کی گئی کہ کسی طرح پروفیسرصاحب کی ان سے ملاقات کرائی جائے۔ ایک دفعہ کراچی آمد پر پروفیسر صاحب کی ان سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے خواب بیان کیا۔ جنرل نے پوچھا اس کی تعبیرکیا ہو سکتی ہے۔ جس پر ان پروفیسر صاحب نے کہا کہ ہو سکتا ہے آپ آرمی چیف ہوجائیں۔ جس پر جنرل نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں اپنے گروپ میں پانچویں نمبر پر ہوں اور مجھ سے سینئر چار وہ ہیں جو ہر لحاظ سے مجھ سے قابل ہیں اور اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔

اوریا صاحب لکھتے ہیں کہ قصہ ختم ہو گیا۔ ابھی تک کسی کے وہم وگماں میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ اس وقت پروفیسرصاحب کو اس طرح کی بے پرکی اڑانے کے الزام میں سخت تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور ایک دن وہ یہ ملک چھوڑ گئے۔ اگر کسی نے محنت کر کے اس واقعہ کے کرداروں تک پہنچنا ہو تو کوئی مشکل بات نہیں، اشارے دے دئیے ہیں۔

اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ ان کا یہ خواب سچ ہو گیا۔ سچے خوابوں کے بارے میں حضوراکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی ہوں گے جو جھوٹے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).