مولوی باقر کو مارنے کا تہیہ کر لیا گیا ہے


برصغیر میں جب کبھی بھی صحافت، اور صحافتی نظریات کی بناء پر موت کو چومنے والوں کا تذکرہ ہو گا تو یہ تذکرہ مولوی باقر کے ذکر سے خالی نہیں ہو گا۔ مولوی اکبر کے صاحبزادے اور مولانا محمد حسین آزاد کے والد گرامی مولوی باقر، دلچسپ بات یہ ہے کہ میں مولوی باقر کا تذکرہ واشنگٹن میں کر رہا تھا۔ واشنگٹن میں، میں نے پاک امریکہ تعلقات خطے کے حالات اور اس کے پاکستان پر اثرات پر ایک سیمینار کا انعقاد کرایا تھا۔ جس میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے پاکستان افغان امور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون، کارنیج انڈومنٹ کے جنوبی ایشیاء پر محقق، جیمز شولز مین، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے سینئر ایڈیٹر جیمز راپرٹ، مواحد حسین شاہ، ڈاکٹر منظور اعجاز اور پاکستان امریکن کانگریس کے صدر اسد چوہدری سمیت احباب نے شرکت کی۔

بات پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر ہونی شروع ہوئی تو دفعتاً میرے ذہن میں مولوی باقر آ گئے۔ اور ان پر گفتگو شروع کر دی۔ برصغیر میں پریس پر پابندیوں کا آغاز 1801 ؁ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع کر دیا تھا۔ وہ بالخصوص اردو، فارسی اور بنگالی اخبارات سے خائف ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انگریزی اخبارات تو ان کی مدد سے ان کے ہی لوگ چلا رہے تھے۔ لہٰذا ان سے خوف بنتا نہیں تھا۔ 1822 ؁ء میں اس ضمن میں سینسر شپ کا سخت قانون بھی نافذ کر دیا گیا۔

بہرحال ابھی دہلی میں پھر بھی کچھ نہ کچھ پریس کی آزادی موجود تھی۔ انہی حالات میں مولوی باقر نے 1837 ؁ء میں دہلی اردو اخبار جاری کیا۔ جس نے عوام الناس میں غیر ملکی تاجروں جو تب آقا بنتے چلے جا رہے تھے کے حوالے سے رائے عامہ کو شعور بخشنا شروع کر دیا۔ برصغیر کی صحافتی تاریخ پر معروف محقق جی ڈی چندن نے کہا تھا کہ در حقیقت 1857 ؁ء کی جنگ آزادی کے لئے زمین ہموار کرنے میں مولوی باقر کے دہلی اردو اخبار کا بڑا ہاتھ تھا۔

اخبار کی زبان مخالفین کے لئے بھی شائستہ ہی تھی مگر اسی شائستگی میں وہ اپنا کام کیے جا رہے تھے۔ جب 1857 ؁ء میں وقتی طور پر دہلی سے کمپنی سرکار کو بیدخل کر دیا گیا اور مغل بادشاہ کا وقتی اقتدار بحال ہوا تو اس کیفیت کو برقرار رکھنے کے لئے مولوی باقر نے پوری جانفشانی سے اپنا اخبار کا سہارا لیا اور اخبار اور جذبہ حریت کو برقرار رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا۔ مولوی باقر نے اخبار کا نام تبدیل کر دیا اور اس کا نام اخبار الظفر رکھ دیا۔ یعنی فتح کی خبر اور نسبت بہادر شاہ ظفر سے بھی قائم ہو گئی۔

جنگ آزادی ناکام ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر انگون جلا وطن ہوئے اور حریت پسندوں کے سر اڑائے جانے لگے۔ تو ایسے میں حریت پسندوں نے جذبہ حریت کو بیدار کرنے والے کیسے محفوظ رہتے۔ 14 ستمبر 1857 ؁ء کو مولوی باقر گرفتار کر لیے گئے۔ 16 ستمبر کو ہڈسن کی فوجی عدالت میں پیش کیا گیا اور اسی دن ابدی نیند سلا دیا گیا۔ ان کی موت پر مشہور روسی مسور VAISLY جو جنگوں کی تصاویر بناتا تھا اور 1904 ؁ء میں فوت ہوانے ایک شاہکار بھی تخلیق کیا۔

یہاں تک گفتگو پر پہنچنے کے بعد میں ٹھہرا اور بولا دو فقروں کی کہانی ہے کہ پاکستان آج بھی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد والے زمانے میں صحافتی آزادی کے حوالے سے موجود ہے کہ جو مولوی باقر کے نقش قدم پر چلے گا وہ کسی بھی حالات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور ہم 162 برس بعد بھی جہاں تھے وہی پر موجود ہے۔ شرکائے گفتگو کی رائے تھی کہ شعور کی ترقی کے لئے اظہار رائے کی آزادی نہایت ضروری ہے اور اس کے فقدان کا ہی سبب ہے کہ پاکستان میں درست فیصلے دشوار ہوتے ہیں اور یہی کچھ افغانستان کے معاملے میں بھی ہوتا چلا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔

ہم یہ شعور ہی نہیں رکھتے کہ امریکی اور افغان وہاں کیا رکھتے ہیں۔ عدم شعور غلط حکمت عملی کا باعث بنتا ہے۔ ڈاکٹر مارون نے کہا کہ امریکہ طالبان کے براہ راست مذاکرات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکی نظر اور خود افغانستان میں وہاں کی پارلیمنٹ کیو قت بہت کم ہے اور ایسا اظہاریہ افغانستان میں جمہوریت کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ اور ایسی کیفیت کے اثرات لا محالہ پلاکستان پر بھی پڑینگے۔ پاکستان پر اثرات پر بات کرتے ہوئے جیمز شولز مین نے کہا کہ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات یونہی چلتے رہیں گے کیونکہ امریکہ پاکستان سے تجارت بڑھانے، گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

اس کی راہ میں کچھ پاکستانی قوانین اور حالات بھی حائل ہیں۔ جب یہ دونوں احباب یہ گفتگو کر رہے تھے تو مجھے ساتھ ساتھ اپنی وہ ملاقاتیں بھی یاد آ رہی تھیں جو اس دوران میں نے وہاں کے سینٹ اور کانگریس کے اراکین اور مختلف تھنک ٹینکوں سے وابستہ افراد سے کیں اور محسوس کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بس ایک موڑ پر آ کر ٹھہرے ہوئے ہیں اور اس وقت سونے پر سہاگہ کہ 2018 ؁ء کے انتخابات سب کی نظر میں مشکوک ہیں۔ اور افغان طالبات سے مذاکرات کے باوجود افغانستان میں پاکستانی مفادات کے تحفظ کا امکان کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔

واشنگٹن میں یہ بہت مضبوط سوچ موجود ہے کہ امریکیوں سے ابتداء میں ہی یہ غلطی ہوئی کہ ہم افغان طالبان سے مذاکرات کے خواہش مند رہے۔ یہ معاملہ حامد کرزئی کے منصب صدارت پر فائز ہونے کے وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا اور اس تصور کی وجہ سے حامد کرزئی کے وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا اور اس تصور کی وجہ سے حامد کرزئی کے وقت سے ہی افغانستان کا موجودہ نظام حکومت کمزوری کی جانب گامزن تھا، اور موجودہ مذاکرات کے بعد مزید کمزور ہو گیا۔

حالانکہ یہ تصور بھی مضبوط ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات میں دیر ہو گئی ہے لیکن اگر اس دوران موجودہ افغان سیاسی نظام کو مضبوط کیا جاتا تو ایسی صورت میں افغان طالبان سے زیادہ بہتر ماحول میں گفتگو کی جا سکتی تھی۔ پاکستان کے لئے افغانستان کے حوالے سے یہ معاملہ بھی نازک ہے کہ وہاں پر اب روس، چین، بھارت اور ایران بھی مکمل طور پر موجود ہے اور بد قسمتی سے پاکستان کی جانب کھڑے ہونے کی بجائے دوسری جانب کھڑے ہیں اور ان حالات میں پاکستان کے لئے معاملات مزید نازک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

لیکن ہم ہیں کہ ان حالات کے باوجود کہ افغانستان میں حالات کروٹ لے سکتے ہیں اور اس سے پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوں گے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اہل اقتدار ہوش کے ناخن لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ گفتگو ہو گی تو بہتر فیصلے کی امید کی جا سکتی ہے مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ حزب اختلاف پر ویسی ہی پابندیاں ہیں کہ ان کی گفتگو براہ راست نشر کرنا قابل گردن زدنی جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں مل بیٹھ کر فیصلے کرنے کے حالات قائم ہو ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ مولوی باقر کو مارنے کا تہیہ کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ مولوی باقر کی زندگی میں قوم کی زندگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).