کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں


خون ہی خون ہے چار چوفیرے۔ اکیسویں صدی کا سورج سرخ رنگ لیے طلوع ہوا۔ غروب ہوتے ہوتے جانے کیا کیا رنگ دکھائے گا۔ نیویارک سے اٹھنے والے دھنویں کے بادل ایشیا کی سرزمینوں پر خون برسا چکے۔ گرج و چمک اگرچہ کچھ کم ہوئی ہے لیکن ارتکاز اتنا ہوچکا کہ اب گرنے والی دو چار بوندوں سے بھی سیلاب کا گماں ہونے لگتا ہے۔ ہو بھی کیوں نا؟ نسلیں معدوم ہونے کو آئی ہیں۔ موت میں اب موت والی تلخی نہ رہی۔ درجن دو درجن اموات تو مین سٹریم میڈیا میں اتنی اہمیت بھی نہی رکھتیں کہ چند لمحوں کے لیے سلوٹ بناسکیں۔

بس ایک بریکنگ نیوز اور اس کے بعد وہی اچھلتی کودتی، رنگوں سے چمچماتی کمرشلز، جیسے کچھ ہوا ہی نہی۔ دلوں میں خلش اٹھتی ہیں نا قومی وقار مجروح ہوتا ہے۔ وہ آسمان کے سرخ ہونے کی باتیں اب کہاں کہ لال آندھی اٹھتی تو بڑے بوڑھے استغفار کرتے کہیں قتل ہوگیا ہے۔ اب بس دھرتی لال ہوتی ہے اور لعل اس میں جا سماتے ہیں۔ اب تو یہ بھی خبر نہی کہ آنکھیں رونا بھول گئی ہیں کہ ان میں رونے کی سکت نہی رہی۔

گئے وقتوں میں امن کی تعریف کچھ بھی رہی ہو، ہم نے یہی جانا کہ ایک دھماکے سے دوسرے دھماکے کے بیچ سمے کو امن کہتے ہیں۔ امن کے گیت اس قدر عام ہوئے کہ ایک ایک دن میں دسیوں بار امن قائم ہو ہوکر بکھرتا رہا۔ ہزار گنجی میں ہونے والا المناک سانحہ بھی اسی دورانیے کی حد ہے۔ امن سے امن تک کے بیچ سینکڑوں لوگ ہزارہ کمیونٹی کے قتل کردیے گئے۔ امن سے امن تک نشتر پارک میں امن ڈھونڈتی ایک لیڈرشپ ختم کردی گئی۔ لیاقت پارک میں ایک شام امن کا ایسا قتل عام ہوا کہ لہو کے چھینٹے ہر ہر گام، در و دیوار پر پھیل گئے۔ پشاور کے گلی محلے بلور خاندان کے خون سے امن کے منہ پر ملی سیاہی کے چشم دیدگواہ ہیں۔ قصہ خوانی بازار سے انارکلی تک اور تین تلوار چوک سے خیبر پاس تک وہ کون سی گلی اور محلہ ہے جہاں خون کی ہولی نہی کھیل گئی۔ کوئٹہ میں وکلاء کی ایک پوری نسل کو امن کی تلاش کے جرم کی پاداش میں تہہ تیغ کردیا گیا۔

آرمی پبلک سکول کی وہ خون آشوب صبح ناقابل فراموش ہے کہ جن بستوں میں کتابیں گئی تھیں ان میں معصوم جسموں کو سمیٹ کر لایا گیا۔ سیکیورٹی اداروں نے دنیا کی تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ کیا کہ مادر ملت میں امن رتوں کو موڑ لانے کے لیے ہزارہا قربانیاں پیش کیں۔ جنگی تاریخوں میں کبھی کسی ملک کے چار چار جنرل کے عہدوں تک پہنچے لوگ قربان نہی ہوئے۔ کئی آئی جیز اس بھیانک جنگ کے شعلوں کی نظر ہوگئے۔ یہ قصے کہانیاں نہی ہیں نہ اگلے وقتوں کی باتیں کہ تاریخ مسخ ہوکے پہنچی ہو، یہ سب ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔

ایسا وقت ہم سب پہ گزرا کہ بازار سے بچ کر گھر لوٹ جانا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ ہو بھی کیوں نہ، کیا آرمی ہیڈ کوارٹر کیا پولیس کی سب سے اہم عمارت سب کے سب دہشتگردوں کی پہنچ میں تھے۔ کس مسلک و مذہب کی عبادت گاہیں تھیں جو اس عفریت سے محفوظ رہیں؟ کس مذہب و مسلک کے علماء کو امان حاصل تھی، کسی کے پاس جواب نہی۔ دہشتگردوں نے اس قوم کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلکی و گروہی اختلافات عروج پاکر ختم ہوتے نظر آئے۔ لسانی و صوبائی اختلافات دہشتگردی کے نئے فتنے تلے دب کے رہ گئے۔

اب حالات قدرے بہتر ہوئے تو وہی پرانی شراب پھر سے بازار میں بکنے کے لیے آگئی۔ پوری قوم نے مشکل ترین دور اپنے اعصاب کی مضبوطی سے گذارلیا اور سیکیورٹی اداروں نے بیش بہا قربانیوں کے بعد حالات اس قدر بہتر کیا کہ خودکش بمباروں کا خاتمہ ہوگیا۔ ملکی و بین الاقوامی سازشوں کا قلع قمع ہوگیا۔ اکا دکا معاملات جو رہ گئے ہیں ان پر ثابت قدمی سے قائم رہ کر ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ جنگ کے بجھتے شعلوں کو ایک بار پھر مسلکی و صوبائی عصبیت کی ہوا دے کر بھڑکانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جو مشکل دور دیکھ چکے ہیں اس کے بعد ایسے امکانات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے قومی اتحاد کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا وقت ہے نا کہ ٹانگیں کھینچنے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).