چھپر کی زرینہ اور بنگلے کی زویا


زرینہ کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی۔ بشیرے نے جس زور سے اس کے بال کھینچے تھے اس پر یہ ردِ عمل توبنتا تھا لیکن بشیرے کو شاید یہ بہت برا لگا۔

”چیختی ہے، سارے محلے کو بتانا چاہتی ہے، لے اور زور سے چیخ، بتا سب کو“ اس نے زرینہ کے منہ پر دو تین تھپڑ جڑ دیے۔ زرینہ کے منہ سے دبی دبی چیخیں نکلیں۔ ایک تو بشیرے کا ہاتھ بہت بھاری تھا اور پھر اوچھا پڑا تھا زرینہ کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ اس سے خون بہنے لگا تھا۔

”میں کسی دوست سے ادھار پکڑ کر دارو لینے جا رہا ہوں مگر کل تو ہر صورت میں اپنی زویا میم صاحب سے پیسے لے کر آنا“۔

بشیرا اسے گالیاں بکتا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ زرینہ نے دو تین گہری سانسیں لیں اور پھر بالٹی سے پانی لے کر اپنے منہ پر چھینٹے مارے۔ اس کے جبڑے درد کر رہے تھے اور ہونٹ سے خون بھی ابھی تک نکل رہا تھا۔ اس نے اپنے دُپٹے سے ہونٹ کو دبائے رکھا کہ خون رک جائے۔

بشیرا جس انداز میں گیا تھا لگتا تھا کہ اپنے نشے کا انتظام کر کے ہی لوٹے گا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کل کس منہ سے زویا سے ادھار مانگے گی۔ پہلے ہی کتنی بار ان سے پیسے مانگ چکی تھی اور واپسی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ زویا کے بنگلے پر کام کرتی تھی۔ صفائی وغیرہ کر دیتی، کپڑے اور برتن دھو دیتی۔ اسے جو تنخواہ ملتی بشیرا اسی دن اس سے چھین لیتا اور پھر جی بھر کے نشہ کرتا۔ چند سال پہلے وہ مزدوری کیا کرتا تھا۔ کبھی کسی راج کے ساتھ، کبھی سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کے ساتھ، پڑھا لکھا تو تھا نہیں کہ کوئی بہتر نوکری ملتی، نہ ہنر مند تھا۔

جب بشیرے کی ماں نے زرینہ کا رشتہ مانگا تھا تو زرینہ کی ماں نے یہ سوچ کر ہاں کی تھی کہ محنتی آدمی ہے زرینہ بھوکی نہیں مرے گی۔ مگر اسے یہ پتا نہیں تھا کہ کل کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ دونوں گھرانوں کی حیثیت ایک جیسی تھی۔ گندے نالے سے متصل غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں نے جیسے تیسے چند چھپر بنا لیے تھے۔ سو زرینہ ایک چھپر سے نکل کر دوسرے چھپر میں آ گئی۔ شادی کے بعد زرینہ پر یہ راز کھلا کہ وہ نشے کا عادی ہے۔

پہلے پہل تو مزدوری کرتا تھا تو اس کا آدھا حصہ نشے پر لگاتا تھا پھر آہستہ آہستہ نشے کا حصہ بڑھنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی میاں بیوی کی تو تو میں میں بھی بڑھنے لگی۔ بشیرا بہت چڑچڑا ہو گیا تھا۔ اب اس نے زرینہ پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کر دیا تھا۔ ایسے میں ایک دن پڑوس کی خالہ صغراں نے زرینہ سے بات کی۔ یوں وہ مختلف گھروں میں کام کرنے لگی۔ اب اس کے پاس بھی پیسے آنے لگے۔ بشیرا اس بات سے خوش تھا۔ اس کے لیے نشے کا حصول کچھ آسان ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ نکھٹو ہوتا چلا گیا۔ نشے کی عادت کی وجہ سے اسے کام بھی کبھی کبھار ہی ملتا تھا۔ اب اس کی نظر زرینہ کے پیسوں پر ہوتی تھی۔

زرینہ دو تین گھروں میں کام کرتی تھی۔ ایک دن کسی کے گھر سے ہی پتا چلا کہ قریب کے انتہائی پوش علاقے میں کام والی کی ضرورت ہے۔ زرینہ وہاں چلی گئی۔ وہاں اس نے پہلی بار زویا کو دیکھا۔ زویا اس کی ہم عمر ہی تھی یعنی تئیس چوبیس سال کی ہوگی مگر اس کی زندگی زرینہ سے یکسر مختلف تھی۔ زرینہ کا رنگ سانولا تھا، ہاتھ پاؤں محنت کر کر کے سخت ہو چکے تھے۔ جب کہ زویا بے حد گوری تھی۔ اس کی جلد بہت شفاف اور ملائم لگتی تھی۔ زرینہ کے چھپر کے مقابلے میں زویا کا بنگلہ بے حد وسیع تھا۔

زویا کا خاوند ایک بزنس میں تھا۔ کروڑوں کا مالک تھا۔ اس کے بنگلے میں چار پانچ گاڑیاں اور کئی نوکر تھے۔ زرینہ کو ایسا لگتا تھا کہ زویا کو کسی اور نوکر کی ضرورت نہیں تھی لیکن جب زرینہ نے اپنی مجبوریاں اور دکھ بھری داستان سنائی تھی تو زویا نے اسے کام پر رکھ لیا تھا۔ شاید وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ بہر حال زرینہ کو یہاں سے باقی گھروں کی نسبت زیادہ پیسے ملتے تھے بلکہ ادھار بھی مل جاتا تھا۔

زرینہ بنگلے پر شام پانچ بجے جایا کرتی تھی۔ اس نے وقت دیکھا پانچ بجنے والے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا، ہونٹ سوجا ہوا تھا۔ گالوں پر بھی تھپڑوں کے آثار نظر آ رہے تھے۔ وہ چادر اوڑھ کر زویا کے بنگلے کی طرف چل پڑی۔

وہ سوچ رہی تھی کہ زویا سے کیسے بات کرے گی۔ بعض اوقات زویا کے خاوند باقر صاحب بھی گھر میں ہوتے تھے۔ ان کی موجودگی میں زرینہ کو بات کرتے ہوئے جھجھک محسوس ہوتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش آج وہ گھر پر نہ ملیں لیکن یہ بھی ہوا تھا کہ ان کی موجودگی میں بھی اسے ادھار مانگنا پڑا تھا اور انہوں نے بڑی نرمی سے زویا سے کہا تھا کہ اس غریب کی مدد کر دو، مجبور نظر آتی ہے۔

باقر صاحب بھی زیادہ عمر کے نہیں تھے۔ ان کی عمر تیس برس کے قریب ہو گی۔ باقر کا خیال آتے ہی اسے چند دن پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ وہ اس دن سڑک کنارے ایک ریڑھی والے سے سبزی خرید رہی تھی جب اس کے پاس سے ایک کار گزری۔ وہ سبزی والا شاپر پکڑ کر واپسی کے لیے مڑی تھی تب اچانک اس کی نظر کار پر پڑی کار چونکہ اسی سمت آ رہی تھی اس لیے اس نے باقر کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا۔ اکثر وہ خود ڈرائیو نہیں کرتے تھے ان کا ڈرائیور گاڑی چلاتا تھا۔ دوسری عجیب بات یہ تھی کہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی۔ زرینہ کے دل میں ایک دو برے خیال آئے لیکن پھر اس نے فوراً ان خیالات کو جھٹک دیا تھا۔ باقر تو زویا سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہو سکتا وہ لڑکی ان کی کوئی رشتہ دار ہو۔

اس نے دو تین بار انہیں ایسے انداز میں زویا کے ساتھ دیکھا تھا کہ وہ شرما کر رہ گئی تھی۔ پھر زویا نے پیار سے سمجھایا تھا کہ کمرے میں آنے سے پہلے دروازے پر دستک دیا کرو۔ زرینہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مرد اپنی بیوی سے پیار بھی کر سکتے ہیں۔ اس نے تو بشیرے کو ہمیشہ زبان اور ہاتھ چلاتے ہی دیکھا تھا۔ کبھی کبھی کسی اور ضرورت کے لیے بھی قریب آتا تھا تو وہاں بھی اسے محض اپنی غرض سے کام ہوتا تھا۔ زرینہ سوچتی تھی کہ زویا کتنی خوش نصیب ہے۔ کاش سب کی قسمت ایک جیسی ہوتی۔

سوچتے سوچتے وہ بنگلے کے گیٹ تک پہنچ گئی تھی۔ بنگلے میں داخل ہوتے ہی اسے مالی نظر آیا۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ باقر کی بلیک گاڑی گیراج سے باہر تھی ڈرائیور اسے کپڑے سے چمکا رہا تھا۔ وہ آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس نے سوچا پہلے زویا سے پیسوں کی بات کر لے پھر کام شروع کرے گی۔ باہر ڈرائیور گاڑی صاف کر رہا ہے شاید باقر صاحب کہیں جانے والے ہیں کیوں نہ ان کے جانے کا انتظار کر لوں پھر سوچا کہ نہیں ابھی بات کرنی چاہیے ہاں دروازے پر دستک دے کر اندر جاؤں گی۔ وہ سوچ کر مسکرا اٹھی۔

اسے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا۔ جب وہ دروازے کے قریب پہنچی تو اندر کے منظر کو دیکھ کر اسے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ زور دار آواز تین بار گونجی۔ زویا کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں۔ پہلے دو تھپڑ تو وہ برداشت کر گئی تیسرے تھپڑ کے ساتھ ہی وہ بیڈ پر گر گئی۔ باقر انگریزی میں غصے سے کچھ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ زرینہ تیزی سے آگے بڑھی زویا رو رہی تھی اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ خون کی لکیر اس کی ٹھوڑی سے ہوتی ہوئی گردن کی طرف جا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).