ذہن کا شیرازہ بکھرنا۔ شیزوفرینیا


1۔ ڈیلیوزن یا شکوک (Delusion) :۔ یہ غلط قسم کے وہ تصورات ہیں کہ جس پر مریض بغیر کسی وجہ یا سبب کے یقین رکھتا ہے۔ مرض کی یہ علامت 90 فی صد لوگوں میں مشترکہ طور پہ پائی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے تاکہ منصوبہ بندی کے تحت جان لے سکے۔ جیسے پانی میں ریڈیو ایکٹو ذرات کی ملاوٹ یا کھانے میں زہر کی آمیزش۔

ان کو یہ بھی شک ہو سکتا ہے کہ ٹی وی یا ریڈیو سے ان کی بابت پیغامات نشر ہو رہے ہیں۔ کچھ کو اس کا یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر انسانی یا دوسرے سیارے کی مخلوق کے قابو میں ہیں۔ جو اپنی سوچوں کو ان کے دماغ میں منتقل کر رہا ہے۔ بہت سے مریضوں کو عظیم شخصیات مثلا حضرت عیسیٰ یا امام مہدی کا دعویٰ تو کسی کو غیر مرئی صلاحیتوں کا دعوی۔ اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں جہاں جن، بھوت، بری ارواح یا مافوق الفطرت اشیاء اور تعویذ کا حوالہ عام ہے۔ وہاں ان مریضوں کو کیا سمجھا جاتا ہوگا؟

2۔ اوہام (Hallucination) :۔ اس میں حواسِ خمسہ بغیر کسی محرک یا اصل وجود کے وہم کی بنیاد پہ محسوس کرتے ہیں۔ مثلا مریض وہ آوازیں سنتے ہیں جو موجود نہیں۔ وہ لوگ دیکھتے ہیں جن کا وجود نہیں۔ اکثر اپنے جسم پر چیزوں کو رینگتا محسوس کرتے ہیں تو کچھ زبان پہ ذائقہ اور اکثر خوشبو اور بدبو محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ جو اصل کے بجائے ان کے ذہن کی اختراع ہوتی ہے۔

3۔ بے ربط سوچ اور گفتگو Disorganized Thinking (Speech) :۔

چونکہ مریضوں میں توجہ مرکوز کرنے اور سوچنے کی اہلیت میں کمی ہو جاتی ہے لہذا اس کا اثر گفتگو پہ بھی پڑتا ہے۔ بے ربط فکر اور گفتگو کو محسوس کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایک موضوع سے فوری ہٹ کر دوسرے موضوع پہ گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ جو غیر منطقی ہوتی ہے۔ جس میں تسلسل اور توازن کی کمی ہوتی ہے۔ مریض نئے الفاظ اور جملوں کی اختراع کرتے اور کبھی کسی خاص جملے یا الفاظ کو بار بار دھراتے ہیں۔ اس ذہنی بے ربطگی کو (Loosing of Association) کہا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ بے مقصد گفتگو ہوتا ہے۔

4۔ بے ربط حرکی رویہ (Extremely Disorganized or abnormal motor behaviour) :۔
ان مریضوں میں بغیر کسی حدف کے زندگی میں بے مقصدیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے کام یا ذات کا خیال رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
بغیر کسی مقصد کے جسمانی حرکت کا دھرانا یا بعض دفعہ کافی دیر تک جسم کو ایک ہی حالت میں رکھنا۔ دوسروں کی ہدایات ماننے سے گریز وغیرہ کا رویہ۔

5۔ منفی علامات:۔ وہ علامت جو صحت مند نارمل زندگی کا حصہ ہوتی ہیں شیزو فرینیا کے مریضوں میں ان کی کمی ہو جاتی ہے لہذا ان کو منفی علامات کہا جاتا ہے مثلاً کسی کام کی لگن یا جستجو کی کمی، جذبات کے اظہار اور تاثرات میں کمی، سپاٹ اور بے تاثر چہرہ، ماحول سے لاتعلقی، بے زاری اور الگ تھلگ رہنے کی خواہش۔ گفتگو میں مشکل اور یکساں یا تاثرات سے عاری ایک جیسے لب و لہجہ میں گفتگو وغیرہ۔

مرض کے عوامل:۔ باوجود اس کے کہ طب اور نفسیات کے شعبے میں گرانقدر ترقی ہوئی ہے۔ شیزو فرینیا اپنی پیچیدگیوں کے سبب ابھی بھی ایک گتھی کی صورت ہے۔ ایک ایسا راز جس کی پرتوں کو کھولنا ضروری ہے تاکہ مرض اور مریض کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔

جینیاتی عوامل:۔ اس مرض کے جو حیاتیاتی عوامل ہیں ان میں گو جینیاتی مادوں کا کردار بھی اہم ہے یعنی اگر ماں یا باپ میں سے کسی کو یہ مرض ہو تو بیماری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں مگر ایسا بھی ہے کہ بہت سے مریضوں میں موروثیت کا کردار نہیں۔ امریکہ کے ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ( 2019 ) کے مطابق موروثی مادوں میں تبدیلی اور ماحولیاتی عوامل دونوں کا کردار اہم ہے مگر اس میں ا بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

کیمیائی عوامل:۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کے دماغ میں پیدا ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں اہم ہیں۔ یہ کیمیائی مادے (نیورو ٹرانسمیٹر) کہلاتے ہیں جو ہمارے اعصابی خلیے بناتے ہیں اورہماری سوچ، محسوسات اور افعال میں توازن رکھتے ہیں۔ مثلا ڈوپامائن (Dopamine) ، سیروٹینن (Serotonine) یا گلوٹا میٹ (Glutamate) وغیرہ۔ ان کا عدم توازن بیماری کا محرک بنتا ہے۔ اس کے علاوہ دماغ کی ساخت میں تبدیلی اور نشونما میں رکاوٹ بھی اہم ہے۔

ماحولیاتی عوامل:۔ ماحولیاتی عوامل کا کردار تو ماں کے رحم سے شروع ہو جاتا ہے مثلاً حاملیت کے دورانیہ میں وائرس انفیکشن، پیدائش کے وقت اوکسیجن کی کمی، اس کے علاوہ نوزائیدگی میں وائرس انفیکشن، بچپن میں والدین کی جدائی، کم عمری میں جسمانی، جذباتی اور جنسی تشدد، ہجرت کا تجربہ، غربت اور معاشی مسائل، جنگ و جدل جیسے ماحولیاتی عوامل بھی ہیں جو ہماری شخصیت اور نفسیات پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

مرض کی تشخیص:۔ تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ پہلے دوسرے ذہنی امراض کے امکانات کو مسترد کیا جائے کیونکہ اکثر منشیات یا دوسری ادویات اور طبی امراض میں بھی شیزو فرینیا کی سی علامت دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے تفصیلی طبی معائنہ اور لیب ٹیسٹ کے علاوہ ایم، آئی، آر اور سی، ٹی اسکین جیسے ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذہنی امراض کے معالج کا تفصیلی معائنہ ضروری ہے۔ جو مرض کے حتمی ہونے کی رپورٹ تیار کرے۔

علاج:۔ یہ مرض طویل دورانیے کا ہے لہذا علاج بھی زندگی بھر کا ساتھی ہے۔ اس سلسلہ میں علامات کو قابو کرنے کے لئے ادویات کے ساتھ تھرپی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی لائف اسٹائل میں تبدیلی اور سماجی تعاون بہت اہم ہے۔

ادویات:۔ وہ ادویات جو سائیکوٹک علامات (اوہام، شکوک، وسوسوں اور غلط سوچ) کو کم کر سکیں اہم ہیں۔ گذشتہ پچاس سالوں میں میڈیسن کی دنیا میں انقلاب آ گیا ہے اور اب یہ ممکن ہو سکا ہے کہ مریضوں کو بجائے زنجیروں قید کرنے کے باعزت زندگی کا تحفہ دیا جا سکے۔ (تاہم دوائیوں کا نام یہاں درج کرنا مناسب نہیں کہ یہ صرف معالج کا کام ہے )

تھرپی:۔ دوائیوں کے علاوہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مریضوں کو وہ طریقے بتائے جائیں جو ان کی زندگی کا معیار بہتر کریں اور بیماری سے متعلق چیلنجز کا مقابلہ کریں۔ اس سلسلے میں گروپ تھرپی خاص کر اہم ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی سماجی تعاون، اسٹرس سے نبرد آزمائی، باقاعدگی سے ورزش، اچھی گہری نیند، الکوحل اور منشیات سے پرہیز اور صحت بخش غذا کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ خاص کر مچھلی سے حاصل اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، اخروٹ وغیرہ موڈ، توجہ اور تھکن کو دور کرنے میں معاونت کریں گے۔

لوگوں سے تعلقات کا ایک ذریعہ رفاعی کاموں میں حصہ لینا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے پسند کے مشاغل اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، خود اعتمادی اور اندرونی مسرت کا باعث بنتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے مزید کلاسیں لی جا سکتی ہیں یا کلب میں شمولیت حاصل کی جائے اور زندگی کو بھرپور طریقہ سے گزارنے کی کوشش کی جائے۔ یاد رکھیے مرض تو رہے گا مگر اس کی علامات کو قابو کرنے میں دوا اور تھرپی کے علاوہ ہمارا اپنا ہاتھ بھی ہے۔

(پاکستان میں اسکزوفرنیا کو شیزوفرنیا کہا جاتا ہے جو کہ برطانوی تلفظ ہے۔ مصنفہ اسے اسکزوفرنیا لکھنا اور بولنا پسند کرتی ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2