کھڑکی کے شیشے پر بادل اور بارش کی تحریریں


بارش تیز ہوتی جارہی تھی۔ شیشے کی کھڑکیاں بادلوں کی گرج سے کھڑکھڑارہی تھیں۔ بوندیں شیشوں سے ٹکراٹکرا کر بہ رہی تھیں۔ وہ دبے قدموں اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی۔ موسم میں خنکی تھی اپنی شال کندھے پہ لپیٹ کر اسے کچھ گرماہٹ محسوس ہوئی۔ برسات میں بوندیں شیشے سے ٹکرا کروہیں رک جاتی تھیں یہ احساس اسے اندر تک جھنجوڑ گیا۔ وہ خود بھی توایک ایسے ہی حصار میں تھی جہاں سارے درد دکھ پیاس قید تھے۔

ایک عرصہ ہو گیا تھا زندگی اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی وہی شب وروز کی رونقیں، بچوں کی اٹھکیلیاں، نوکری گھرکے کام سب نمٹاتے نمٹاتے جانے کب رات ہوجاتی اور وہ اپنے بستر پہ تنہائی اوڑھ کر سوجاتی۔

یہ تنہائیاں اس کا نصیب نہیں تھیں، یہ تنہائیاں اس پہ زبردستی مسلط کی گئی تھیں۔ وہ ایک حسین عورت تھی اور ہر حسین عورت کو اپنا قدر دان چاہیے ہوتا ہے لیکن افسوس اس کی اس خواہش کو بے دردی سے کچلا گیا اس کے لمبے بالوں میں گجرے لگانے کے بجائے وہ ان بالوں کو سنوارنے کا موقع بھی نا دیتا۔ گھر بچے تو ہونا ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے ناتواں جسم پہ تابڑ توڑ حملے کیے گئے اپنے بچے تو جنے ہی، اپنے آس پاس والوں کے بچے بھی اسی کی ذمہ داری تھے۔

وہ جو کسی کے پاؤں کو ہاتھ لگانے سے گھنیاتی تھی شادی کے دوسرے ہی دن ساس کے ناخن کاٹنے کا حکم صادر ہوا۔

جوانی اور خوب صورتی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جا رہی تھیں وہ وقت کو روک لیناچاہتی تھی وہ اپنے ہر پل کو جینا چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ اگر وہ خوش ہے توکوئی پوچھے کیوں خوش ہے گر اداس ہے تو کوئی پریشان ہوکہ کیوں اداس ہے وہ بارش کی ان بوندوں کو اپنی پیاسی روح میں جذب کرناچاہتی تھی۔

روح میں چھید نہیں ہوتے وہ توایک ہیولا ہے جواپنے اندر ہرلطیف احساس جذب کر لیتا ہے بوندوں کی تراوٹ ہو یا سانسوں کی سرسراہٹ، لمس کی گرماہٹ ہویا تعلق کی کڑواہٹ۔ اور خوش نصیبی کے کیا ہی کہنے جو اس ہیولے کو ایک روح اپنے اندر سمو لے، جذب کر لے اس کی ساری محرومیاں سیراب کردے، اسے ایسے کہ بارش کی بوندیں حیران رہ جائیں۔

آنکھیں موندے تخیل کی وادیوں میں کہیں بہت دور تک نکل گئی تھی وہ کاندھوں پہ کسی بھاری ہاتھوں کے محفوظ حصار کا احساس لئے قدم سے قدم ملا کر نرم گھاس کی نمی تلووں تلے محسوس کیے بس چلے جارہی تھی کہ کالے بادلوں سے ڈھکی اندھیری رات کو اس کا اس طرح کھو جانا برداشت نا ہوا اور بادل گرجنے لگے۔ اسے واپس حقیقی زندگی میں لوٹانے کو بضد ہو گئے ایسے گرجے اور چمکے کہ کمرہ روشن ہوگیا اور وہ اپنی آنکھیں نا چاہتے ہوئے بھی کھولنے لگی۔ پلکوں پر کچھ قطروں کا وزن تھا جو آنکھیں کھولنے سے اس کے گالوں پہ بہ کے کہیں کھوگیا۔ وہ اپنے بستر پہ پلٹ آئی۔ سائیڈ ٹیبل سے ڈپریشن کی گولیاں گلاس بھر پانی کے ساتھ لینے کے بعد بالآخر اپنی تنہائیوں کو اپنے بازووں میں سمیٹ کرنیند کی آغوش میں چلی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).