افغانستان امریکہ پاکستان اور طالبان


اس بات پر تو پاکستان، امریکہ، طالبان اور افغانستان کو کوئی اعتراض نہیں کہ افغانستان میں بہر صورت امن بحال ہونا چاہیے اور اس امن کا پائیدار ہونا بھی ضروری ہے لیکن کیا پاکستان یا امریکہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں، یہ بات نہایت غور طلب ہے جس کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

افغانستان جغرافیہ لحاظ سے جس خطہ زمین پر واقع ہے اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ کئی دہائیوں کے ناگفتہ بہ صورت حال، بدامنی، قتل و غارت گری اور اقتصادی بد حالی کے با وجود بھی دنیا اس کے حصے بخرے کرنا پسند نہیں کرتی اس لئے کہ یہ اس جغرافیائی پٹی میں کئی بڑے ممالک کو مزید بڑا اور طاقتور ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔

افغانستان کی اس جغرافیائی پٹی کے متعلق اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس جغرافیائی پٹی پر کوئی ملک ہے ہی نہیں یا اس نام کا خطہ زمین ہی موجود نہیں تو اس کے فوائد کم از کم دنیا کے دو ممالک کو بہت ہی زیادہ ہوں گے جس میں پہلے نمبر پر روس آتا ہے اور دوسرے نمبر پر چین۔ چین کو اگر افغانستان کی سر زمین مل جائے تو اس کے زمینی راستے دنیا کے ان بیشمار ممالک سے جا ملیں گے جن تک پہنچنے کے لئے وہ ہزاروں میل کا طویل سمندری راستہ طے کر کے پہنچتا ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو سمندر کا طویل ترین راستہ طے کر لینے کے باوجود بھی بیشتر ممالک میں اپنی تجارت کو وسیع کرنے، سامان ترسیل کرنے یا سامان وصول کرنے کے لئے بھی اسے بیشمار دوسرے ممالک کے خشکی کے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس سے کہیں سنگین صورت حال روس کی ہے جس کے سمندر سرد موسموں میں اسے سال کے آٹھ نو ماہ کسی بھی قسم کی آمد و رفت کی اجازت ہی نہیں دیتے اور برف سے ڈھکے سمندر اس کے لئے سرد دوزخ بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس کی تجارت کا انحصار زیادہ تر زمینی راستوں پر ہے جس کی راہ میں ترکی، چین، ایران اور افغانستان جیسے ممالک پڑتے ہیں اور ان ممالک سے اس کے خارجی تعلقات بہت مثالی نہیں جس کی وجہ سے اسے تجارت میں وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو کسی بھی ملک کے لئے بہت خوش آئیند بات ہوا کرتی ہے۔

ایسی صورت میں اگر روس کے درمیان سے افغانستان کی جغرافیائی پٹی ختم ہوجائے تو چین کی طرح روس کے بھی زمینی راستے دنیا کے بیشتر ممالک سے بہت اچھے انداز میں بحال ہو جائیں اور اگر وہ توسیع پسندانہ انداز میں اپنی آخری جغرافیائی رکاوٹ، پاکستان سے جارحانہ انداز نہ بھی رکھے اور اچھے پڑوسیوں جیسے انداز میں لین دین رکھے تو یہ امر نہ صرف روس بلکہ خود پاکستان کے لئے بھی بہت خوش کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہو اگر غور کیا جائے تو ایشا کے دو بہت طاقتور ممالک، چین اور روس اقتصادی خوشحالی کی وجہ سے دنیا کے بہت بڑے اور طاقتور ملک بن سکتے ہیں اور خود پاکستان بھی دنیا کا ایک خوشحال اور ترقی کرتا ہوا ملک بن سکتا ہے۔

افغانستان کی یہی وہ اہمیت ہے جس کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن امریکہ اس معاملے کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ انتہائی نا خوشگوار حالات میں پھنس جانے کے باوجود بھی افغانستان سے جانا نہیں چاہتا کیونکہ اسے یہ کسی طور بھی گوارا نہیں کہ اس خطے میں کوئی ایسی حکومت قائم ہوجائے جو امریکہ کی بجائے روس یا چین کی مرضی کے تابع ہو اور امریکہ کے مستقبل کے لئے خطرات کھڑے کرے۔

امریکہ، پاکستان یا دنیا کے دیگر ممالک افغانستان میں امن کے خواہاں ضرور ہیں اس لئے کہ پرامن افغانستان ہی سب کے مفاد میں ہے لیکن امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے دورو نزدیک اس بات کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے جس سے افغانستان میں پائیدار امن قائم ہونے کی امید باندھی جا سکے۔

افغان امن کو امریکہ اپنے حساب سے، روس اور چین اپنے زاویہ نظر سے، پاکستان اپنے نقطہ نظر سے جبکہ اس خطے کا ایک اور بڑا ملک اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت، اپنے حساب سے دیکھتا ہے جو کسی صورت اس بات کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں کہ افغان امن کی صورت میں پاکستان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں اور پاکستان دنیا میں ایک ابھرتا ہوا ملک بن جائے۔

یہ ساری صورت حال سامنے رکھی جائے اور پھر اس بات پر غور کیا جائے کہ کیا جو کچھ ٹرمپ پاکستان سے چاہتا ہے اور جو جو کچھ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ٹرمپ کو امیدیں دلاکر آئے ہیں، کیا پاکستان امریکہ کی توقعات پراسی طرح پورا اترنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

ابھی تک جو بات سامنے آئی ہے وہ افغان امن کے حوالے سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر کوئی ایسا فارمولہ تیار کرنا ہے جو پاکستان، امریکہ، طالبان اور خود افغان حکومت کے لئے یکساں قابل قبول ہو۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ بات بھلا بھی دی جائے کہ افغانستان پر روس، چین، ایران اور بھارت کے بھی دانت ہیں اور ترکی بھی کسی قسم کی غفلت برتنے کے لئے تیار نہیں اور یہ مسئلہ صرف چار فریق، پاکستان، امریکہ، طالبان اور افغان حکومت ہی کا ہے تب بھی کیا ایسا ممکن ہے کہ صرف بات چیت کے ذریعے یہ اونٹ کسی ایسی کروٹ بیٹھ سکے گا جس کو پائیدار امن سمجھ لیا جائے؟

یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ افغان حکومت اور طالبان دونوں ان انتہاؤں پر ہیں جہاں دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں۔ جس طرح طالبان اس بات کو گوارا نہیں کرتے کہ افغان حکومت کو مذاکرات میں شریک کیا جائے اسی طرح افغان حکومت کو طالبان سے مذاکرات کسی صورت پسند نہیں۔

اگر عمران خان کے دورہ امریکہ کے حوالے سے غور کیا جائے تو وہاں جو بات بہت واضح ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان اس بات پر تیار ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے گا جبکہ افغان طالبان بھی پاکستان آنے اور مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹیلی فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے افغان طالبان کا کہنا کہ اگر اُنھیں پاکستان کی طرف سے رسمی طور پر دعوت دی جائے تو وہ پاکستان جائیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے ہیں تو اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے، تو ہم جائیں گے کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔

پاکستان بھی امن کے لئے طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہے، امریکہ کی خواہش بھی ایسی ہی ہے اور خود طالبان مذاکرات کے ذریعے امن کے خواہاں ہیں لیکن کیا افغان حکومت بھی ایسا ہی چاہتی ہے؟ ، یہ ہے وہ اہم ترین سوال جس کا جواب بہت مشکل ہے۔ ہر وہ شاہ جو تخت و تاج پر بیٹھا ہو یا بٹھا دیا گیا ہو وہ اتنی آسانی سے تخت کو تختہ دیکھنا گوارا نہیں کیا کرتا۔ اب پاکستان کو بھی یہ بات لازماً سوچنا ہوگی کہ آیا وہ تخت نشیوں کا ساتھ دے یا ان کا ساتھ دے جو تخت کا تختہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا طالبان کو پاکستان آنے کی دعوت دینا اور ان کے ساتھ امریکہ کی خواہش کے مطابق بات چیت کرنا افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف نہیں کردے گا؟

بظاہر افغان حکومت کی ساری طاقت و قوت خود امریکہ ہی نظرآتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ افغان حکومت کو امریکہ کی مرضی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑجائیں گے لیکن اگر یہ اتنا ہی آسان کام ہوتا تو امریکہ کو پاکستان کے آگے دست سوال دراز ہی کیوں کرنا پڑتا۔

جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ اس وقت افغانستان سے کئی ممالک کے مفادات وابستہ ہو چکے ہیں اس لئے یہ بھول جانا کہ روس، چین اور بھارت اس تمام صورت حال کو محض تماشبینوں کی طرح ہی دیکھتے رہیں گے، دیوانگی ہی ہوگی۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی افغان حکومت سے طوطا چشمی روس یا چین میں سے کسی کو افغان حکومت کے قریب کردے۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے موجودہ افغان حکومت کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے، اس صورت میں امن قائم کرنے کے سلسلے میں امریکی خواہشات اور پاکستان کی کوششوں پر پانی بھی پھر سکتا ہے۔

ایک جانب تو یہ امر غور طلب ہے اور دوسری جانب یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی دوستی منافقت سے بھری پڑی ہے۔ 1971 سے تا حال ہم کئی مرحلوں پر اس کے ”ساتویں ایٹمی بحری بیڑے“ کو دوربینیں لگا لگا کر تلاش کرتے رہے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے باعزت اور محفوظ انخلا کے علاوہ فی الحال اور کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔ جونہی وہ باعزت اور محفوظ انخلا میں کامیاب ہوا، اس کا ساتواں ایٹمی بحری بیڑا ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور ڈالروں کی وہ چمک جو پاکستان کی آنکھوں کو خیرہ کیے ہوئے ہے وہ بینائی لے اڑے گی۔

پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ کے روانہ ہونے کے بعد کیا پاکستان، روس، چین، بھارت اور خود افغانستان کے ساتھ تنہا دشمنی مول لے سکتا ہے؟ اگر وہ یہ سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ ”چمک“ سے چندھیا گیا تو پھر کھوئی بینائی اسے حقیقی معذور بھکاری میں بھی تبدیل کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).