یہ معیشت کا نہیں، سیاست کا بحران ہے


وزیر اعظم عمران خان وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے تو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ کلام الملوک ملوک الکلام۔ بادشاہ سلامت کا فرمان اعلیٰ ترین کلام، حتمی دلیل اور برہان قاطع ہوتا ہے۔ محترم وزیر اعظم، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، منتخب سربراہ حکومت ہیں۔ ان کے دست راست محترم شیخ رشید ہمیں وقفے وقفے سے مطلع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کی پشت پر کیسے کیسے لشکر جرار صف آرا ہیں۔ ہم تہی دست شہری سرمو اختلاف کی مجال نہیں رکھتے۔ کتاب قانون میں ہزاروں ضابطے درج ہیں، ان گنت تشریحات ہیں۔ وہ جو ثروت حسین نے کہا تھا، ’اوزاروں کے نام بہت ہیں، ہتھیاروں کے دام بہت ہیں، اے سوداگر کون گنے، دس سے اوپر کون گنے‘۔ حاکم بے نیاز ہے، احتساب کا بندوبست جامع ہے، کارندے چوکس ہیں، تعزیر کا کوڑا حرکت میں ہے۔ جانے کب دے دے صدا کوئی حریم ناز سے۔ ایک بشارت مارگلہ کی پہاڑی سے ہویدا ہوئی ہے۔ ہے کوئی جو اس اعزاز کے قابل ہو۔

ہماری ہڈیوں میں لیکن ایک مرد درویش کی بے نیازی اتر گئی ہے۔ لاہور کے اس دانائے راز کو اقبال کہتے تھے۔ اقبال نے خبردار کیا تھا، ’تمیز بندہ و آقا فسادِ آدمیّت ہے‘۔ بندگی کا المیہ یہ ہے کہ اس کا نقطہ انقطاع نہیں ملتا۔ بندہ مجبور جسے آقا تسلیم کرتا ہے، اس آقا کے پیچھے بھی ایک آقا ہوتا ہے۔ بندہ اور آقا کا رشتہ ایسا مجرد منظر نہیں جسے مصور کے کینوس پر قید کیا جا سکے۔ تمیز بندہ و آقا ایک فلسفہ حیات ہے۔ انسانیت کی تہ در تہ ذلت کے تار اس بوسیدہ پارچے سے نکلتے ہیں۔ انسانیت کا احترام مطالبہ کرتا ہے کہ اس قرطاس کہنہ کو چاک کیا جائے تاکہ روشنی کی کرن راستہ پا سکے، چشموں کا ٹھنڈا پانی روانی سے بہریاب ہو سکے۔ اونچی اور نیچی کٹھن راہوں کو ہموار کیا جا سکے۔ آج کے دن مگر قلم کے لئے تجویز ہے کہ واقعات اور دلائل بیان کرنے سے گریز کرے۔ یہ حزن کا رزمیہ لکھنے کا وقت ہے۔ یہ وقائع نگاری کا نہیں، ایک کیفیت کو دستاویز کرنے کی گھڑی ہے۔

ایک صاحب نظر نے فرمایا ہے کہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ایک برس میں 16 ارب ڈالر کے قرضے لے لئے۔ ایک رائے یہ ملی کہ ایک برس میں ڈالر کی قیمت میں قریب پچاس روپے کا اضافہ کمر توڑ رہا ہے۔ معیشت کے کچھ شناور کہتے ہیں کہ ایک ہی برس میں محصولات کے ہدف میں قریب 30 فیصد کا اضافہ کرنا کون سی حکمت ہے۔ محترم اسد عمر اس ایک برس میں کوئی آٹھ ماہ کے لئے خزانے کے مدارالمہام تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر بھی معیشت کی کایا کلپ ممکن تھی۔ اب ایک ایک کر کے دیکھ لیجئے۔ سرمایہ دار معیشت میں قرضہ لینا اگر ایسا ہی غلط ہوتا تو جاننا چاہیے کہ امریکا کا کل قرض 22 کھرب ڈالر ہے۔ کسی ملک کی معیشت میں قرضے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہیے کہ معیشت کا کل حجم کیا ہے نیز یہ کہ پیداواری اور کاروباری سرگرمیوں کی صورت حال کیا ہے۔ قرضہ بذات خود وجہ تنقید قرار نہیں پاتا۔

دوسرے، ڈالر کی قیمت تو بہرصورت بڑھنا ہی تھی۔ یہ البتہ ممکن تھا کہ اس زوال کی رفتار کو قابو میں رکھا جاتا۔ ملکی کرنسی کی مصنوعی قیمت سے معیشت کی بنیاد کھوکھلی ہوتی ہے۔ محصولات کا ہدف ہم نے اس لئے بڑھایا کہ جن سے قرض لیا تھا، انہوں نے قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کی شرائط عائد کیں۔ قابل غور نکات دو ہیں۔ پہلا تو یہی کہ اسد عمر ابھی تک اس خوش فہمی میں ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی جادوئی شخصیت کے بل پر معیشت کے لئے کوئی شعبدہ دریافت کیا جا سکتا تھا۔ نیز یہ کہ این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ہم نے گزشتہ دو برس میں وفاقی بجٹ میں اخراجات کے خدوخال پر مناسب غور و فکر نہیں کیا۔ اس برس بھی پارلیمنٹ میں بجٹ پر کماحقہ بحث تو ہوئی نہیں۔ بجٹ کیسے پاس ہوا، یہ قومی مفاد کے نازک نکات ہیں۔

آئیے آپ کو 1972 میں لے چلیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن انقلابی اور عوامی حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ تب ہم نے نیشنلایزیشن کا تجربہ کیا تھا۔ آج پچاس برس بعد بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب ہم ’آسمانی بادشاہت‘کے ایک اور تجربے سے دوچار ہیں اور ہم نے ٹیکس کے نام پر ملکی معیشت جام کر دی ہے۔ پیداوار، کاروبار اور روزگار کے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ یہ نسخہ کارآمد نہیں ہو گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم سیاسی بصیرت اور معاشی حکمت میں تعلق قائم نہیں کر پا رہے۔ خدا معلوم کس نے یہ پٹی پڑھا دی ہے کہ گزشتہ دو حکومتوں نے رات کے اندھیرے میں خزانے کی الماری کھولی، قومی دولت بوریوں میں بھر کر کہیں جنگل میں چھپا دی۔ چنانچہ اگر دو درجن سیاسی حریفوں کو الٹا لٹکا دیا جائے تو ملکی خزانہ سرسبز ہو جائے گا۔ کوئی گزشتہ حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی کھوج لگانے نکلا ہے تو کوئی غیر ملکی دوروں کے اخراجات کا پشتارہ اٹھائے آ رہا ہے۔ احتساب کی یہ مشق شاید شجر اقتدار کے تازہ غنچوں کے لئے نئی ہو، ہمیں بھٹو کے سعید احمد خان، ضیاالحق کے فیض علی چشتی، نواز شریف کے سیف الرحمن، پرویز مشرف کے کموڈور ذکااللہ یاد ہیں۔ احتساب کی اس مشق سے جمہوری بندوبست کا مردہ خراب ہو گا اور معیشت کی بدھیا بیٹھ جائے گی۔

درویش نے استاد مرحوم ڈاکٹر اقبال سے پوچھا کہ سیاسی قیادت کو پرکھنے کا پیمانہ کیا ہے۔ فرمایا۔ ویژن۔ انگریزی کے اس مختصر سے لفظ نے ہماری تاریخ میں ایک آفت جوت رکھی ہے۔ کہیں ایوب خان کی نیلی آنکھیں اور دراز شانے ہیں۔ کہیں بھٹو کی چست انگریزی ہے، کہیں ضیاالحق کی پاک دامانی ہے، کہیں نواز شریف کی کاروباری سوجھ بوجھ ہے۔ اور اب تو خوابوں کا دیومالائی شہزادہ سفید گھوڑے پر سوار ہے۔ جدھر نظر اٹھائے، اہل حسن دل بچھاتے ہیں اور اہل ثروت تجوریاں کھول دیتے ہیں۔ اے صاحبان نظر، ویژن مجموعہ ہے علم، فہم اور ہدف میں تال میل کا۔ سیاست وہ مہارت ہے جس کی مدد سے رہنما اپنا ویژن قوم کو منتقل کرتا ہے۔ آج کی دنیا میں کسی رہنما کا شخصی کرشمہ کام نہیں آتا، سکوں کی کھنک جادو دکھاتی ہے۔ کارخانے میں مشین کا گھومتا ہوا پہیا اسم اعظم ہے۔ درس گاہوں کا تعلیمی معیار ترقی کی کلید ہے۔ قومی اداروں کی ساکھ رہنماؤں کو ہالہ کئے ہوتی ہے۔ آپ بیرون ملک کھڑے ہو کر سیاسی حریفوں کو للکارتے ہیں، صحافت کو نکیل ڈالنا چاہتے ہیں اور دھمکیوں سے معیشت چلانا چاہتے ہیں۔ نثار عثمانی مرحوم فرمایا کرتے تھے، آپ پہلے حکمران نہیں ہیں اور یقیناً آخری بھی نہیں ہیں۔ مشیران کرام تو ہنر مند لوگ ہوتے ہیں، اگلی چوکھٹ پر بھی یہی بے بحر کا قصیدہ پڑھیں گے اور جھولیاں بھریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).