تیور: فلم ریویو


فلم کا آغاز ایک مڈل کلاس خوش باش گھرانے سے ہوتا ہے۔ ایک پنشنر باپ اور اس کی دو بیٹیاں۔ اور ان کا ایک چچا زاد جس سے کزن میرج کے خلاف بحث کرتی اس کی اولین محبت ہے۔

دوسری جانب معاشرے کا تاریک لیکن حقیقی رخ دیکھاتے کچھ نا سور جنھیں نا والدین ”تربیت“ دے سکے نا معاشرہ۔ اور وہ ”سرپرستی“ (اور یہی وہ وجہ تھی جس پر علی سجاد کو صعوبتیں سہنی پڑیں ) کے زعم میں ظلم کی ہر حد توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

کہانی کا آغاز کچھ تجسس کا عنصر لیے ہوئے ہے جہاں کیا چل رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ذہن تانے بانے بنتا رہتا ہے اور آگے چل کر وہ گتھی بھی سلجھ جاتی ہے۔ فلم سنسر شپ کی نذر ہونے کے باعث مختصر ہے لیکن ایک جامع پیغام سمیٹے ہوئے ہے کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والے کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں۔

فلم آرٹ مووی کا رنگ لیے ہوئے اس لیے متیرا کی موجودگی کے باوجود کوئی آئٹم سانگ نہیں ہے اور متیرا اپنی تمام حشر سامانیوں کے باوجود گونگی کا کردار نبھانے پر مجبور ہے جسے اس نے بخوبی نبھایا۔

ٹک ٹاک بوائے جو ٹک ٹاک پر نازک ہیرو ہے یہاں ”موجو“ ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ جس دن موجو ڈر گیا سمجھو کراچی لاہور بن گیا ہے۔

ٹونی کو پوری فلم میں راج پال یادیو کہتی رہی کیونکہ ان کا قد کاٹھ وہی۔ اور انداز بہت بے ساختہ

ایک اور ولن جو مفت کی سگریٹ پیتا اور مفت سفر کرتا ہے سخت جان و ظالم دکھایا گیا ہے۔

ایک گنجا غنڈہ جو نشے کا عادی ہے۔ جو اصل میں ایکٹر نہیں سات سال جیل کاٹ کر آنے والا حقیقی ملزم تھا۔

ان سب نے بے ساختہ ڈائلاگ ڈیلیوری اور چال ڈھال سے خود کو کہیں بھی نیا یا نو آموز ثابت نہیں ہونے دیا۔

اکبر سبحانی صاحب کے مقابل کسی اداکار کا دیا نہیں جل سکا وہ پوری طرح ہر سین پر چھائے نظر آئے۔

فلم کے ہیرو شوکت۔ ۔ جو کہ ایک شریف النفس انسان ہے لیکن وقت آنے پر وہ خود کو مقابلے کا اہل ثابت کر کہ ہیروئین کا دل جیت لیتا ہے

حنا۔ جس نے ریپ کا شکار ایک لڑکی کی نفسیات کا خوب مظاہرہ کیا جو کبھی ڈر جاتی ہے تو کبھی مرنے مارنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔

مرکزی کردار عارفہ۔ جس کے کردار میں ڈھلنے کی ہیروئین نے پوری کوشش کی۔ ایک گھریلو لڑکی جو مشکل حالات میں ہمت کا دامن نہیں چھوڑتی اور مقابلے کرتی ہے۔ اور انسانی نفسیات کے عین مطابق کہیں کہیں ہمت ہارتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ چھوٹی موٹی خامیوں جیسے عمومی ڈاکوؤں کا رویہ اور فلم میں سلو مو اور ڈانس آئیٹم یا سونگ کی عدم موجودگی جیسی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر فلم بہت اچھی ہے۔ نیز ایک شخص کی ہمت و فن کی داد نا دینا نانصافی ہے اور کم وسائل کے باوجود ایک بہترین فلم بنا پانے جیسے مشکل کام کو سر انجام دینے پر علی سجاد شاہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).