ہمارے آرام، سونے، سیکس کرنے اور دربار سجانے کی جگہ: ’بستر‘ سے جڑے 13 حقائق



6- قرونِ وسطیٰ کے بڑے بڑے پلنگ تو خاندان سمیت مہمانوں کے لیے بھی جگہ رکھتے تھے

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں امراء کے بہت ہی بڑے بڑے پلنگ ہوا کرتے تھے۔

قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عوام کی اکثریت غربت میں رہتی تھی اور وہ اس وقت بھی گھاس پھوس کے بنے گدّوں پر سوتے تھے۔ لیکن اسی یورپ میں امراء نے اپنے لیے بڑے بڑے شاہانے طرز کے پلنگ بنانے شروع کردیے۔

پروفیسر گریک جینر کہتے ہیں کہ وہ تو بہت ہی بڑا پلنگ ہوتا تھا جس کی سب سے بڑی مثال برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ اول کا شاہانہ پلنگ تھا۔

یہ پلنگ ’اتنے وسیع ہوا کرتے تھے کہ شاید اس میں آپ فٹ بال کی پوری ٹیم کو سلا سکتے تھے۔‘

’اگرچہ یہ بہت ہی مضبوط ہوتے تھے لیکن ان کو الگ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا تاکہ اگر انھیں کہیں اور لے جانا پڑے تو اس کے حصے با آسانی جدا کیا جا سکے۔ اور امرا جب دیہات میں اپنی جاگیروں پر جائیں تو ان پلنگوں کو اپنے ہمراہ لے جائیں۔

7- ’کس کے سونا‘ سے مراد یہ ہوتی تھی کہ آپ کا پلنگ کیسا بنا ہوا ہے

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

انڈیا جیسے ملک میں پلاسٹک کے بان سے جو پلنگ بنایا جاتا ہے اُسی چارپائی کہا جاتا ہے

اس قسم کے پرانے پلنگوں کا ڈھانچہ عموماً لکڑی سے بنایا جاتا تھا۔ پروفیسر گریک کے مطابق ’ان کے درمیان میں کھیتوں کے بھوسے سے تیار کیا گیا بان استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ بان کی رسی ڈھیلی ہو جاتی تھی اور پھر اسے کسا جاتا تھا تاکہ رات کو آرام دہ نیند آسکے۔ اور یہیں سے یہ محاورہ ‘کس کے سونا’ بنا۔’

8- پلنگ کے ارد گرد چار ستون سے سماجی حیثیت ظاہر کی جاتی ہے

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

چار ستونوں والا پلنگ سماجی حیثیت دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

چودھویں اور پندھرویں صدی میں چار ستونوں والے پلنگ کے رواج کی ابتدا ہوئی۔

ان بستروں کے اوپر ایک چھتری بنی ہوتی ہے۔ گریک کہتے ہیں کہ اس کا اس زمانے میں اٹلی میں بہت رواج تھا۔ اس کے ستونوں پر شفاف قسم کے پردے ٹنگے ہوتے تھے، بہت سارے تکیے رکھے ہوتے تھے جن کی وجہ سے یہ ایک تماشگاہ کا منظر پیش کرتا تھا۔

یہ خوبصورت پلنگ اس کے مالک کی مالی حیثیت کو ظاہر کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتا تھا اور وہ اس لیے نہیں کہ اس پلنگ کو سجانے کے لیے نوکروں کی ایک فوج درکار تھی۔

9- پلنگ سیاسی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہوتے تھے

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

سویڈن کے محل ڈورٹنگوم کا یہ کوئی معمولی نوعیت کا بستر نہیں ہے

پروفیسر ساشا ہینڈلی کہتی ہیں کہ 15ویں اور 16ویں صدی کے ادوار شاہی پلنگوں کے زمانے کہے جاسکتے ہیں۔ پروفیسر ساشا جدید تاریخ کے شروع کے دور اور اس زمانے کی نیند پر گہری نظر رکھتی ہیں جو کہ پندھرویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک محیط ہے۔

پروفیسر ساشا کہتی ہیں کہ اس دور کے دو یورپی بادشاہوں نے درباروں میں مخصوص شان و شوکت والی شاہی ثقافت کو فروغ دیا، ایک تو فرانس کے لوئی چہاردھم نے ورسائے میں، اور دوسرے انگلینڈ کے چارلز دوئم تھے جنھوں نے سترویں صدی کے آخر میں اس ثقافت کی سرپرستی کی۔

اس زمانے کی بروق کہلانے والی طمطراق سیاسی ثقافت کی بنیاد اس فلسفے پر قائم ہوئی تھی کہ بادشاہ کو خدا نے حقِ حکمرانی عطا کیا ہے یعنی وہ ظلِّ الٰہی ہے۔ اسی سے یہ نظریہ بنا کہ ریاست کی تمام طاقت کا مظہر بادشاہ ہے۔ لہٰذا یہ تصور ابھرا کہ آپ جتنے بادشاہ یا ملکہ یا اس سے منسوب اشیاء یا ان کے حواریوں کے قریب ہیں آپ خدا کی نظر میں اتنے ہی مقرب اور منظورِ نظر ہیں۔

ساشا کے مطابق، ’ان کے لیے پلنگ سیاسی زندگی کا مرکز ہے، وہ اُسے ایک ایسے سٹیج کی طرح استعمال کریں گے جس پر یا جس کے ارد گرد، تمام رسومات و آداب بجا لائے جائیں گے اور جہاں یہ بھی ظاہر ہوگا کہ بادشاہ یا ملکہ کس ملک کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔

ورسائے میں پسندیدہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہ کی رہائش کے اُس حصے تک آنے کی دعوت دی جاتی تھی جہاں وہ نیند کے بعد جاگتا تھا اور جہاں وہ اپنا لباس بدلا کرتا تھا۔

10- بد شگونی دور کرنے کے لیے بچوں کے جھولوں پر چاقو لٹکانا

بستر سماج مباشرت سیکس سیاست دربار

شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں میں بچوں کے جھولوں پر بدشگونی یا نظرِ بد سے بچانے کے لیے کوئی پر یا کوئی اور شہ ٹانگ دی جاتی تھی۔ آج کل ایسی ٹوٹکے دنیا کے کئی حصوں میں بہت مقبول ہورہے ہیں۔

مسیحیوں کا ماننا تھا کہ جب وہ سو رہے ہوتے ہیں تو ان پر کسی شیطانی طاقت کا حملہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ رات کی سیاہی میں شیطانی طاقتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔

انجیل میں ایسے کئی واقعات کا ذکر ہے کہ لوگوں کو رات میں سوتے ہوئے قتل کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سونے سے پہلے کی کئی رسومات نے جنم لیا۔

رات کے وقت سونے سے پہلے کی دعا کے علاوہ جو کہ اس زمانے میں ایک معمول تھی، لوگ کوئی نہ کوئی تعویذ یا قیمتی پتھر کا بنا زیور اپنے پاس رکھتے تھے کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ اِس سے ان کی زندگی محفوظ ہو جائے گی۔

کچھ لوگ بھیڑیے کے دانت کو دھاگے سے باندھ کر گلے میں پہنتے تھے اور نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی بچوں کے جھولوں پر چاقو ٹانگ دیا کرتے تھے۔

دھات کو کسی بھی مافوق الفطری خطرے کا توڑ سمجھا جاتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp