ہندراپ نالہ تنازع پر سیاست


گلگت بلتستان صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے چار نامکمل اضلاع میں سے ایک ضلع گوپس یاسین کے علاقہ پھنڈر بالخصوص ہندراپ کے عوام کو نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ اگلے سال گلگت بلتستان کے انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ اس بات میں کسی قسم کی حیرات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کہ پیشہ ور بہروپیے انتخابات میں ووٹ کے حصول کے لئے قسم قسم کے بھیس بدل کر دروازے پر دستک دیں گے۔ یہ ناشکر طبقہ اس بات کا کبھی بھی شکریہ ادا نہیں کرے گا کہ آپ نے عین انتخابات کے موقع پر ایک اچھا موقع فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں عوامی نمائندگی کا ڈھونگ رچایا جاسکتا ہے۔

ہندراپ نالہ گلگت بلتستان کا واحد تنازعہ نہیں ہے یہاں پر بین الاقوامی، بین الصوبائی اور بین الاضلاعی تنازعات بھی موجود ہیں البتہ ہندراپ نالہ اس حوالے سے انتہائی منفرد اور مختلف ہے کہ اس کے فریق پر اغواء برائے تاوان کا پرچہ کٹ چکا ہے۔ کوہستان سے تعلق رکھنے والے آفرین خان کا نام اس وقت گلگت تک پہنچ گیا جب ہندراپ نالے سے چارا فراد اغواء ہوگئے۔ جس پر عینی شاہدین جنہیں اغواء کاروں نے ہی واپس بھجوادیا تھا، نے تھانہ پھنڈر میں آفرین خان کو نامزد کرکے درخواست دائر کرکے مطالبہ کیا کہ ان کی بازیابی کے لئے کارروائی کی جائے۔

اس خبر کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ آنا اور اشتعال پھیلنا ایک فطری بات ہے لیکن گلگت بلتستان پولیس کی بروقت کارروائی نے چاروں مغویوں کو بازیاب کرایا۔ دلچسپ طور چار روز کے بعد چاروں مغویوں پر تھانہ کوہستان میں ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ افراد غیر قانونی اسلحہ لے کر کوہستان کے حدود میں داخل ہوگئے تھے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

ہندراپ نالہ پر متعدد پریس کانفرنسز ہوچکے ہیں، جن میں اہلیان ہندراپ، سیاسی زعماء، آفرین خان، پولیس و دیگر شامل ہیں، جبکہ سیاسی میدان کو خالی پاکر آئندہ انتخابات میں اترنے والوں نے بھی بھرپور جذبات کا اظہار کیا۔ یہاں یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ ہندراپ نالہ میں گھاس چرائی کا معاملہ 1968 سے چل رہا ہے، 2011 میں نیا معاہدہ ہوا، اس کے بعد کوہستان سے تعلق رکھنے والے آفرین خان نے ایک اور پرانا معاہدہ برآمد کرکے گھاس چرائی پر اپنا قبضہ جمایا جسے گلگت بلتستان کے متعلقہ اداروں نے بقول صوبائی وزیر جھوٹ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب آفرین خان کے مطابق گھاس چرائی کا معاہدہ 1968 میں ہوا ہے جو کہ تاحال جاری ہے۔ اس تنازعہ کا ایک کیس عدالت میں بھی زیر بحث ہے یقینا عدالت کا فیصلہ اہمیت کا حامل ہے اور جلد از جلد اس پر فیصلہ سنانا چاہیے تاکہ منطقی انجام کی طرف سفر کیا جاسکے۔

ادھر کوہستان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی ملک آفرین بھی اس معاملے میں کود پڑے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سیاسی ماحول کی وجہ سے پیچدگیاں بڑھ رہی ہیں، اس تنازعہ کو دو صوبوں کا تنازعہ بنانے کی بجائے اسے دو فریقین کا تنازعہ بنایا جائے۔ میڈیا میں بھی اسے ایسے ہی دکھایا جاتا ہے جیسے دوصوبوں کا تنازعہ چل رہا ہے۔ ملک آفرین کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آرہی ہے کہ دونوں علاقوں میں موجود مقدمات کو ختم کرکے جرگے کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جائے۔ یہ بات بھی شاید نئی نہیں ہوگی کہ رکن قومی اسمبلی ملک آفرین کے قریبی رشتہ داروں کی اکثریت گلگت جگلوٹ سے تعلق رکھتی ہے اور چاروں مغویوں کی بازیابی میں ان کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے وہ قومی قائدین جو ’غذر بچاؤ‘ تحریک چلارہے ہیں سے گزارش ہے کہ اپنی سیاست سیاسی اصولوں کے مطابق ہی رکھیں۔ اشکومن سے ایک نوجوان کو مقبولیت مل رہی ہے جس نے گزشتہ الیکشن میں ناقابل یقین طور پر بھاری ووٹ لیا تھا، نوجوان اس کے بعد بھی غذر سے چمٹارہا اور ہر مسئلے پر بھرپور آواز اٹھاتا رہا، شاید اس کا آواز اٹھانا دوسروں کی آواز دب جانے کے مترادف ہوگیا ہوگا جس کی وجہ سے ایک سے بڑھ کر ایک بڑی آواز میں بات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

موجودہ دور کے مقبول سیاسی رہنماؤں میں سے ایک نواز خان ناجی ہیں، ان کی اشکومن میں کی گئی تقریر آج بھی دستیاب ہے جس میں ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی، پھر ہندراپ نالے کے تنازعے میں بھی انہوں نے تمام الزامات ریاست یا ریاستی اداروں پر عائد کردئے۔ نواز خان ناجی ایک نہیں بلکہ متعدد ایسے رہنما ہیں جو اپنی سیاست چمکانے کے لئے اشکومن کے نوجوان سے زیادہ آواز بلند کرنا چاہتے ہیں اور آواز تب تک بلند نہیں ہوتی ہے جب تک رخ ریاستی اداروں کی طرف نہیں کیا جائے۔ ہندراپ نالے کے تنازعہ کی شدت کتنی ہے اور بنیادی مسئلہ کیا ہے، اوپر ذکر ہوچکا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اتنے معمولی (اغواء کے علاوہ) مسئلے پر اتنی سخت تقاریر؟

ہمیں اپنی ذات کے اندر ہی اتنی منافقت میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کی شاید کوئی نظیر ہی نہ ملے۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہمارے سیاسی منشور اور سیاسی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔ ہم بنیادی حقوق اور بنیادی سہولیات کو لے کر مسئلہ کشمیر سے جوڑ دیتے ہیں، مسئلہ کشمیر کو ہم فرقہ واریت سے جوڑ دیتے ہیں، سیاسی زندگی میں فرقہ واریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ فرقہ واریت سے باہر ہمیں اندھیرا نظر آتا ہے اور اندھیرے میں تیر چلانے کے ہم بڑے ماہر ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان کے قربانیاں لازوال ہے لیکن اپنے سیاسی مفادات کے لئے ان قربانیوں کا زوال لانا کیسی دانشمندی ہے۔ گلگت بلتستان کی قوم پرستی کی بھی مثال نہیں ملے گی۔ یہاں کے نام نہاد قوم پرست بھی انہی مغلظات اور تعصبات میں گھرے ہوئے ہیں جس میں ایک عام آدمی ہوگا۔ قومی سوچ یہاں گناہ کبیرہ اور شجر ممنوعہ ہے۔ قومی سوچ آج تک صرف اس وقت بیدار ہوئی ہے جب قومی سطح کی تبدیلیوں میں ذاتی مفادات کو خطرہ پڑگیا ہو۔

یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اچانک میدان سیاست میں اترنے والے، یا کسی موقع کو پانے والے بھی خود کو قومی رہنما ہی تصور کرتے ہیں۔ لیکن ان کے سیاسی فیصلوں میں کبھی قومی مفاد سامنے نہیں آتا ہے۔ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف باضابطہ طور پر اب میدان میں اترنے کی تیاری کررہی ہے، گزشتہ الیکشن ایک لحاظ سے ریہرسل تھا، پہلے باضابطہ الیکشن میں اترنے والی جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو ماضی میں چوک چوراہوں پر تقاریر کے ذریعے عوام میں اشتعال پھیلاتے تھے۔

قومی سوچ کافقدان بنیادی طور پر انفرادی سوچ سے ہی جنم لیتا ہے لیکن ہر معاشرے میں ایک طبقہ بالادستی حاصل کرتا ہے، اس بالادست طبقے کی سوچ گوکہ ہمیشہ اپنے مفاد تک محدود ہوتی ہے لیکن اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ہر قسم کے چھتریوں کا سہارا لیا جاتا ہے، اور تب تک بالادستی جاری رہتی ہے جب تک انفرادی سوچ معاشرتی ضروریات کے مطابق مڑ نہ جائے۔

ہندراپ نالے سے چار افراد کو اغواء کرنا کوئی مذاق نہیں ہے، آفرین خان کو اس کی قرار واقعی سزا ملنی ہی چاہیے لیکن وہ لوگ بھی قابل گرفت ہے جنہوں نے غیر ضروری اشتعال انگیزی کی ہے۔ اپنے مقاصد کے لئے عوام کو استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ جس کی جتنی سیاست چمکنی تھی چمک گئی ہے لیکن تاریخ خود کو دوبارہ دہرارہی ہے کہ نام نہاد قائدین اپنے مفاد کے تحفظ اور مقاصد کے حصول کے لئے کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).