پچیس جولائی کو کیا واقعی عوامی مینڈیٹ چوری ہوا تھا؟


پچیس جولائی خان صاحب اور ان کی جماعت کی کامیابی کا جشن منانے والوں کی اکثریت کے لئے یقیناً ایک بھیانک خواب کی مانند ہوگا، کم از کم میرے لئے تو یقینن ہے کہ میں نے پی ٹی آئی سے نظریاتی مخالفت، ووٹ چوری کی شکایات اور تحریک انصاف کو زبردستی کامیابی دلوانے کے یقین کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل، آئینی طور پر اپنے مقرر کردہ وقت پر اقتدار کی پرامن منتقلی اور مضبوط و مستحکم اسلامی جمہوری پاکستان کے خواب کی تکمیل کی خواہش مجھے عمران خان صاحب کی قیادت میں پی ٹی آئی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی کامیابی کے لئے دعاگو بھی رہا۔

انتخابات میں بدترین انجینئرنگ کی شکایات پاکستان کی سوائے تحریک انصاف ہر سیاسی جماعت کو تھیں، انتخابات میں 16 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے جو کسی بھی پارلیامانی انتخابات میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد ہے، ان انتخابات میں چالیس سے زائد حلقے ایسے تھے جن میں جیتنے والوں کے ووٹوں کی اکثریت مسترد کردہ ووٹوں کی تعداد سے بھی کم تھی، انتخابات کے بعد ملک کے بیشتر علاقوں سے گٹروں کچرے کے ڈھیروں سے تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے انتخابی نشانات پہ مہر لگے بیلٹ پیپرز برآمد ہوئے، جبکہ انتخابات کے مکمل نتائج آنے میں دو دن سے بھی زیادہ وقت لگا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے سوا تمام ملکی جماعتوں نے 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو نہ صرف مشکوک قرار دیا بالکل انہیں بدترین دھاندلی زدہ کہہ کر مسترد بھی کردیا۔

ان انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن، جی یو آئی ف سمیت کچھ جماعتیں تو اسمبلی میں حلف لینے کے لئے بھی تیار نہیں تھیں مگر پیپلز پارٹی کی دانشمند قیادت نے انہیں قائل کیا کہ ہمیں دھاندلی کے خلاف احتجاج ضرور کرنا چاہیے مگر اسمبلی میں بیٹھ کر فلور آف دی ہاؤس بھی اور اسمبلی کے باہر بھی، اگر آج ہم دھاندلی کا رونا روتے ہوئے حلف نہیں اٹھائیں گے تو تیسری قوت کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا موقع ملے گا جس سے جمہوریت کی بساط لپیٹی بھی جا سکتی ہے اور پھر اس ساری صورتحال کے قصوروار ہم بھی ہوں گے لہٰذا سیاسی فہم وفراست، عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ اسمبلی میں بیٹھ کر انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سخت مؤقف بھی اپنایا جائے اور حکومت کو مجبور کیا جائے تاکہ دھاندلی کے اسباب اور محرکات کی تحقیقات کروا کے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

خان صاحب اور ان کی حکومت نے بھی اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی اور اس سلسلے میں ایک 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی قائم ہوئی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک صاحب اس کمیٹی کے متفقہ طور پر چیئرمین مقرر ہوئے، مگر بدقسمتی سے ایک سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو اس کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد ہو سکا نہ ہی اس کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ بن سکا اور نہ ہی اس کے ٹی آر اوز ہی بنائے جا سکے۔ اب اگر پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف کی پارلیمانی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس گزرے ایک سال میں قومی اسمبلی کی کارکردگی قانون سازی کے لحاظ سے انتہائی تشویشناک رہی، قومی اسمبلی کشتی کا اکھاڑہ نظر آئی دھینگا مشکی ہر اجلاس کا خاصہ رہی، ملک و قوم کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لئے اقدامات پر قانون سازی نہ ہونے کے برابر رہی۔

حکومت کا کام ہوتا ہے اجلاس کو ڈیکورم کے مطابق چلانا اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا اہم قومی مسائل پر یکساں اور متفقہ مؤقف رکھنا، مگر تحریک انصاف کی حکومت کی ناتجربہ کاری، ہٹ دھرمی، اپوزیشن سے سیاسی مخالفت کو ذاتیات تک لے جانا ابھی تک قومی اسمبلی کا سب سے اہم اور پریشان کن پہلو رہا ہے۔ یہ پہلی قومی اسمبلی دیکھی ہے جہاں حکومتی اراکین احتجاج کرتے اور شور و غل کرتے نظر آتے ہیں، قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر اگر قائد ایوان مثبت تقریر کرتے اپوزیشن سے باوجود اختلافات اور نظریاتی تفرقات کے انہیں عوامی مسائل پر، ملک کو درپیش عالمی اور معاشی چیلنجز پر ساتھ دینے کی درخواست کرتے اور انتخابات میں ہونے والی دھاندلی پر ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے تو شاید آج اس قومی اسمبلی کو ہم سیاسی کشتی کا اکھاڑہ نہیں کہہ رہے ہوتے۔

مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے ووٹ دے کر اراکین کو اپنے مسائل کے حل، ملک کو سیاسی، معاشی بحران سے نکالنے کا مینڈیٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا ہے۔ پاکستان کی ڈیڑھ کروڑ سے زائد عوام نے پی ٹی آئی کو حکومت کرنے اور ان کو دکھائے گئے سہانے سپنوں کو سچ کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے، مگر افسوس کہ عمران خان صاحب کی سوئی پہلے دن سے ہی چوروں ڈاکوؤں ملک لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا پہ اٹکی ہوئی ہے۔

بھائی آپ کو کس نے کہا ہے کہ آپ احتساب نہ کرو، آپ سخت اور کڑا احتساب کرو مگر اپنے قول کے مطابق کہ ہر کرپٹ، لٹیرے کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کریں، احتساب خود سمیت سب کا کریں، لیکن بدقسمتی سے اب تک احتساب ایک بدترین انتقام کی شکل اختیار کر چکا ہے جو کہ خان صاحب آپ کے اپنے دعوؤں اور وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ 2013 کے انتخابات میں چار قومی اسمبلی کے حلقے کھلوانے کے لئے آپ نے 126 دن دھرنا دیا، لیکن آپ کی اپوزیشن نے ابھی تک 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے خلاف دھرنا نہیں دیا، اس میچور اپوزیشن نے آپ کی بات مانتے ہوئے جو آپ نے وزیراعظم منتخب ہونے سے کچھ روز پہلے قوم سے خطاب میں کہی تھی کہ اپوزیشن کو جہاں جہاں دھاندلی کی شکایت ہے وہ حلقے کھول دیں گے۔

پھر اپوزیشن باوجود انتخابات کے نتائج پر شدید اعتراضات و تحفظات کے قومی اسمبلی میں بیٹھی۔ قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کو ملک کی تعمیر اور ترقی، عوامی فلاح و بہبود کے لئے اٹھائے جانے والے ہر اقدام پر بھرپور حمایت کی یقین دہانی کروائی۔ خان صاحب بڑے خوش قسمت ہیں کہ ملک کی تمام مقتدر قوتیں، اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ان کے حق میں کھڑی ہے، ملکی تاریخ کی مضبوط ترین اپوزیشن 25 جولائی 2018 کو منقسم نظر آئی، لیکن تحریک انصاف حکومت اور قیادت کی ہٹ دھرمی، تکبر، اداروں کے ساتھ ہونے کا زعم، بدترین طرزِ حکمرانی، احتساب کی آڑ میں روا رکھا گیا انتقام اور جذبۂ انتقام کی تسکین کے لئے اپوزیشن قیادت کی پکڑ دھکڑ، تحریک انصاف حکومت کے عوام دشمن اقدامات کے خلاف میڈیا تنقید اور اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوششوں نے نظریاتی، سیاسی اختلافات رکھنے والے روایتی مخالفین کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔

پچھلے سال 25 جولائی سے اس سال 25 جولائی کے درمیان اگر خان صاحب اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے قدم اٹھاتے، عوام کو روزگار اور چھت فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعووں کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتے، ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر ملک میں ایک صحت مند سیاسی کلچر کی بنیاد رکھتے تو شاید آج اپوزیشن متحدہ اپوزیشن کی شکل اختیار کرکے یوم سیاہ نہ منا رہی ہوتی، آج میڈیا اپنے خلاف سینسرشپ اور آزادیِ اظہار رائے کے لئے سڑکوں پہ احتجاج نہ کر رہی ہوتی، آج ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لینے والے عمران خان صاحب کے خلاف ملک کے طول و عرض میں ہوشربا مہنگائی افراط زر بجلی گیس، پیٹرول کی قیمتوں میں دوگنے تگنے اضافوں کے خلاف گو نیازی گو کے نعرے بلند نہ ہو رہے ہوتے۔

خان صاحب کو وزیراعظم بنے ابھی کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا ان کی آئینی مدت کے چار سال ابھی باقی ہیں مگر انہیں پہلے ایک اچھا انسان بننے کی ضرورت ہے تب ہی وہ اچھے حکمران بن سکتے ہیں مگر وہ ابھی تک صرف حکمران ہی بن پائے ہیں جو اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے، انہیں احتساب کے نام پر بدترین انتقام کا نشانہ بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کے یوم سیاہ نے جہاں ملک کی مختلف نظریات رکھنے والی مختلف الخیال جماعتوں کو یک جا کر دیا ہے وہاں اس گزرے ایک سال میں تحریک انصاف کے اتحادی بھی عمران خان صاحب کی حکومت اور ان کے اقدامات سے نالاں نظر آتے ہیں اور حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے پر ناراض نظر آتے ہیں اور یہ تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی پہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

تحریک انصاف قیادت خاص طور پر عمران خان صاحب کو اپنی سیاسی ساکھ اور اپنی کامیابی کو عوامی صاف اور شفاف ثابت کرنے کے لئے انتخابی دھاندلی کمیٹی کو جلد از جلد دھاندلی کی صاف و شفاف تحقیقات کرنے کے اقدامات اٹھانے اور اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کے احکامات جاری کرنے ہوں گے، احتساب کے عمل کو صاف و شفاف اور بلا امتیاز بنانے کے اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور ملک کی متحدہ اپوزیشن فیصلہ کن احتجاج کے لئے کوئی انتہائی قدم اٹھانے کا اعلان نہ کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments