انتقام


”نن۔ نن۔ نہیں۔ خدا کے لئے مجھے یہاں بند نہ کرو۔ دیکھو میں تمہیں بہت فائدہ پہنچا۔ “ اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی دروازہ بند کیا جا چکا تھا۔

اندر گھپ اندھیرا تھا، تاریکی اتنی کہ ہا تھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
”مجھے باہر نکالو میرا یہاں دم گھٹ رہا ہے۔ “ وہ زوردار آواز میں چلایا۔

گرمی، حبس اور اس سے بڑھ کر چاروں طرف پھیلی ایک نامانوس سی بو۔ اس کا واقعی دم گھٹ رہا تھا۔
”پلیز، دروازہ کھولو۔ “ وہ روہانسا ہو کر پھر چلایا۔

چاروں طرف اب ایک پراسرار سی خاموشی تھی جیسے وہاں کوئی نہ ہو، لیکن پھر بھی اس کو اپنے اوپر انگنت نگاھوں کی تپش کا احساس شدت سے ہو رہا تھا۔ اندھیرے میں آنکھیں سکیڑ کر اس نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی، اب کچھ حد تک اس کی آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوتی جا رہی تھیں، اپنے آس پاس چند ہیولے دیکھ کر ڈر کے مارے وہ دروازے کی طرف لڑکھا، لیکن دروازہ باہر سے بند تھا۔

کون ہے۔ ؟ اس کے گلے سے بمشکل ایک کانپتی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔

چاروں طرف اعصاب چٹخا دینے والی خاموشی تھی، اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اچانک ایک طرف کچھ حرکت ہوئی اور پھر ہوا میں انتہائی باریک گرد اٹھی اور اس کے نتھنوں میں گھستی چلی گئی۔

اب اس کی برداشت جواب دے گئی، وہ چھینکتا کھانستا بند دروازے سے سر ٹِکائے لگاتار چلا رہا تھا۔

”دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔ “

”اے۔ چپ۔ کیا شور مچا رکھا ہے۔ “ اس کے عقب سے ایک بھاری بھرکم اور رعب دار آواز گونجی۔

ڈر کے مارے اس کی گھگی بندھ گئی۔

”تمہیں کیا لگتا ہے، تم یہاں واحد قیدی ہو۔ “

باہر کہیں کوئی بلب روشن ہوا تھا، جس کی روشنی دروازے کی چنددرزوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔

اس نے ڈرتے ڈرتے آس پاس نظر دوڑائی۔ اب ان ہیولوں کے خدوخال واضح ہوتے جا رہے تھے۔ رنگ اڑے پژمردہ چہرے مختلف تاثرات لئے کافی تعداد میں موجود تھے۔ کہیں پہ دکھ تھا تو کہیں غصہ، کہیں افسوس تھا تو کہیں ناگواری، لیکن ایک جذبہ جو سب کے چہروں پہ مشترک تھا وہ بے بسی کا تھا۔

وہ چاروں طرف نظریں دوڑاتا گیا۔ چند لمحے پہلے والا خوف اب زائل ہوتاجا رہا تھا اور اس کی متجسس رگ پھڑک رہی تھی۔

”آپ سب یہاں کب سے ہیں۔ “ کچھ توقف کے بعد اس نے جھجکتے ہوئے کئیوں کے چہروں پر موجود دبیز دھول کی تہوں کو دیکھ کر پوچھا۔

”زیادہ تعداد تو ہم جیسے پرانے قیدیوں کی ہے، ہاں چند ایک نئے بھی ہیں“ اس کے قریب سے ایک دوستانہ آواز ابھری تو اس نے اپنا رخ اس آواز کی طرف موڑ لیا۔

گرد آلود شکنوں سے پر چہرے پہ اس نے نظر دوڑائی وہ انتہائی ضعیف لگ رہا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں بہت روشن تھیں۔

”لیکن ہمیں کیوں قید کیا گیا ہے۔ “ اس نے الجھتے ہوئے پوچھا۔

”ا نہوں نے ہمارا سودا کر لیا ہے۔ “ روشن آنکھوں والے چہرے سے آوازبرآمد ہوئی۔

”ہمارا سودا۔ لیکن کس سے۔ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ “ اس نے انتہائی حیرت سے استفسار کیا۔

”ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ لیکن ظاہری چمک دمک نے ان کی آنکھیں چندھیا دی ہیں۔ “

”لیکن یہ تو انتہائی گھاٹے کاسودا ہے۔ “ دوسری طرف کا جواب سن کر وہ تیزی سی بولا۔

”ہاں۔ سو تو ہے۔ ۔ لیکن ان کو جب تک احساس ہو گا تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ “ اس کے مخاطب نے افسوس سے اپنے اوپر سے گرد جھٹکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔

”لیکن یہ ہوا کیسے؟ “ اس کو ابھی تک اس جال کا سرا نہیں مل رہا تھا۔

”ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ کسی زمانے میں ہمیں بہت عزت و تکریم حاصل تھی۔ ہمارا بہت مرتبہ اور مقام تھا۔ “ افسردگی کی آمیزش لیے اس کی آواز میں ایک عجیب سی لے تھی، جس سے سننے والا مبہوت ہو جائے۔

”لیکن پھر ایسی نوبت کیوں آئی۔ ؟ اور اس کی وجہ کیا بنی۔ ؟ “ اس کے اندر کا کھوجی جاگ چکا تھا، وہ اس بات کی تہ تک پہنچنا چاہتا تھا۔

چند لمحے کے لیے دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔ باقی تو پہلے ہی چپ چاپ ان کی باتیں سن رہے تھے۔

”اس کے لیے تمہیں پوری داستان سننا پڑے گی۔ کیا تم سننا چاہو گے؟ “

اس کے اثبات میں سر ہلانے پر کہانی کا آغاز ہوا۔

”کافی وقت پہلے کا ذکر ہے۔ “

وہ دم سادھے دروازے سے ٹیک لگائے سنتا گیا۔ باقی سب بھی ہمہ تن گوش تھے۔ ویسے بھی اس قید خانے میں اور کرنے کو تھا ہی کیا۔

”تو اس طرح ہماری بربادی کا آغاز ہوا۔ اور“ وہ ”اس کی وجہ بنا۔ “ کہانی ختم کر کے اس نے نفرت سے دروازے کی طرف دیکھا، باقی سب نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دروازے کی طرف نظریں دوڑائیں جس کی درزوں سے ہنستا مسکراتا روشن چہرہ لئے ”وہ“ صاف نظر آ رہا تھا۔

۔ ۔

”تم سب نے کبھی انتقام کے بارے میں سوچا ہے۔ “ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا۔ نگاہیں اب تک باہر جمی ہوئی تھیں۔

”انتقام۔ لیکن ہم کیسے انتقام لے سکتے ہیں۔ اس جیسے تو لاتعداد موجود ہیں، ہم کس کس سے انتقام لیں گے۔ “ بزرگ نے نفی میں سر جھٹکا۔

”اس سے تو کم از کم لے ہی سکتے ہیں۔ شاید ہمیں دیکھ کر ہم جیسے باقی جیلوں میں قید بھی مثال پکڑیں۔ اور عین ممکن ہے کہ ہم اپنا چھینا گیا مقام واپس پا لیں۔ “ جوش کی شدت سے اس کی آواز بلند ہو گئی۔

”لیکن کیسے۔ ؟ “ پہلی بار ان دونوں کے علاوہ کسی اور کی آواز وہاں گونجی۔

”ایک آئیڈیا ہے میرے ذہن میں۔ “ وہ آہستہ آہستہ بتانے لگا۔ اس کا ذہن اب بہت تیز چل رہا تھا۔

”لیکن اس کے لیے کسی کو قربانی دینا ہو گی۔ تکلیف سہنا ہو گی۔ “ مکمل پلان بتا کر اختتام کرتے ہوئے اس نے کہا۔

”میں تیار ہوں۔ “ چند لمحوں کی اعصاب شکن خاموشی کے بعد ایک بھاری بھرکم لیکن ضعیف سی آواز گونجی۔

”لیکن۔ آپ۔ کیسے۔ “ ایک ساتھ مختلف آوازیں گونجیں۔

”میں ہی اس کام کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہوں۔ اور ویسے بھی میرا اب اس قید میں جی گھٹنے لگا ہے، مجھے رہ رہ کر اپنی آزادی کے دن یاد آتے ہیں۔ اب اس آخری وقت میں مجھ سے میرے انتقام کا حق نہ چھینو۔ “ وہی بھاری بھرکم آواز پھر گونجی۔ دروازے کی درزوں سے آتی روشنی سے دور ہونے کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔

کچھ دیر تک بحث ہوئی۔ اور آخر سارے متفق ہو گئے۔ اب بس موقع کا انتظار تھا۔

۔ ۔

چند دن بعد ہی وہ موقع مل گیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ آج دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ شاید قسمت ان کے ساتھ تھی۔

اس نے دروازے کی ایک درز میں سے جھانک کر دیکھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک میز تھی جس پر وہ موجود تھا۔ ان کا دشمن۔

سب کچھ ان کے پلان کے مطابق تھا۔ اس نے اشارہ کیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی دروازے تک آئی۔ سارے ٹکٹکی باندھے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اپنی آواز کی طرح وہ خود بھی بہت بھاری بھرکم تھی۔

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر دروازے پر چڑھنا شروع کیا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا۔ لیکن انتقام کا جذبہ ساری مشکلات پہ حاوی تھا۔ آخر بہت جدوجہد کے بعد وہ دروازے کے پٹ کو تھامے اس کے اوپر موجود تھی۔

اس نے ایک الوداعی نگاہ اپنے پیچھے موجود ساتھیوں پر ڈالی اور باہر چھلانگ لگا دی۔

۔ ۔

پہلے ”دھب“ اور پھر ”چٹاخ“ کی اونچی آوازوں کے ساتھ چند اور آوازیں بلند ہوئیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔

چند لمحوں بعدہی بیرونی دروازے سے تیز تیز قدموں کی آواز اندر آ کر رکی۔

”ارے۔ یہ کیا۔ یہ دروازہ کیسے کھلا ہے۔ اوہ یہ کتاب باہر گر گئی۔ شاید اسی کی آواز تھی۔ “ آنے والے نے جھک کر نیچے پڑی ”اردو لغّت“ کو اٹھایا جس کی جلد اکھڑ چکی تھی، اوپر سے کتاب کے گرنے کی وجہ سے میز بھی اوندھا پڑا تھا۔ تب ہی اس کی نظر میز کے نیچے موجود اس پر پڑی۔

”اوہ۔ میرا موبائل۔ “ کرچی کرچی ہوئی سکرین والے موبائل کو اس نے فورا اٹھا کر دیکھا

کتاب سمیت زمین پر گرنے سے موبائل کی سکرین بیکار ہوچکی تھی۔ وہ اب کسی کام کا نہیں رہا تھا

”اس کو بھی ابھی ٹوٹنا تھا۔ آج تو ہڑتال کی وجہ سے ساری مارکیٹ بند ہو گی۔ اب میں کیا کروں گا۔ “ اپنے روز مرہ کے معمولات میں خلل کا سوچتے وہ بے چین ہوگیا۔ گھر میں اس کا زیادہ وقت موبائل پہ ہی گزرتاتھا۔

”ابھی تو رات کے آٹھ بجے ہیں۔ اب وقت کیسے گزرے گا۔ “ اس نے پھٹی ہوئی کتاب کو اٹھا کر الماری کی طرف دیکھتے سوچا۔

موبائل وہ پہلے ہی دراز میں رکھ چکا تھا۔ ہڑتال کے سبب پرسوں سے پہلے اس کا ٹھیک ہونا ممکن نہیں تھا۔

الماری کا پٹ کھلا تھا اور اس کے ساتھ ایک کتاب بمشکل اڑی ہوئی تھی۔ یہ ایک جاسوسی ناول تھا جو چند دن پہلے ہی اس نے اتوار بازار سے خریدا تھا۔ کسی زمانے میں اس کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا لیکن پھر موبائل اور کمپیوٹر کا دور آگیا اور انہوں نے اسے اپنا تابع کرلیا۔ اب بھی اس نے اپنی پرانی عادت کے تحت بازار میں نگاہ پڑنے پر اس ناول کو خرید تو لیا تھا مگر بجائے پڑھنے کے وہ اسے رکھ کر بھول ہی گیا تھا۔ موبائل سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ کچھ اور کیا جا سکے۔

لیکن اب اس کے پاس فرصت تھی۔ کچھ سوچتے ہوئے اس نے ”اردو لغّت“ الماری میں موجود سامنے پڑی ”داستان امیر حمزہ“ کے ساتھ رکھی اور اس کے ساتھ موجود جاسوسی ناول جو گرنے والا تھا کو تھام لیا۔

”اف اندر کتنی گرد ہے۔ کل چھٹی ہے انشا اللہ اس الماری کی صفائی کریں گے۔ “ جاسوسی ناول تھامے الماری کا دروازہ بند کرتے اس نے خودکلامی کی اور بیڈ کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔

اِدھر باہر کمرے میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا وہ ناول کا پہلا صفہ کھول کر پڑھ رہا تھا اُدھر الماری کے اندر درزوں سے آنکھیں لگائے ساری کتابوں کے چہرے خوشی کے باعث دمک رہے تھے۔

محمد نعمان، اٹک
Latest posts by محمد نعمان، اٹک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).