این آر او کی گردان عمران خان کی جھنجھلاہٹ ہے


تحریکِ انصاف کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ حکمران جماعت نے سال کی تکمیل پر الیکشن 2018 میں اپنی کامیابی کی یاد میں یومِ تشکر منایا۔ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر یومِ سیاہ منایا۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت نے ملک کے حالات عوام کے لیے نہایت دگرگوں کر دیئے ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ڈالر اور سونے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں روزگار تو کیا پیدا ہونا تھے، اُلٹا بے روزگاری میں بے بہا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اپنے گھر کا خواب دکھا کر بہت سوں کے سر سے چھت بھی چھین لی گئی ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخ میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے لوگوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا سے بھی محروم کر دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ میڈیا پر سخت ترین سنسرشپ عاید کر دی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کے سانس لینے پر پابندی ہے یا پھر انہیں سانس لینے کے لیے ٹیکس دینا پڑے گا۔ احتساب کے نام پر بدترین انتقام کا چلن رائج کر دیا گیا ہے۔

عمران خان نے تحریکِ انصاف کے جھنڈے تلے جس جس طرزِ حکمرانی پر شدید نکتہ چینی کی تھی اور اسے سابقہ حکومتوں کی نااہلی قرار دیا تھا، اب وہی طرزِ حکمرانی وہ خود اپنائے ہوئے ہیں بلکہ کئی معاملات میں ان سے کہیں آگے بڑھ کر حکومت کر رہے ہیں۔ قرض لینے سے بہتر خودکشی کو ترجیح دینے والے عمران خان نے بالآخر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ دوست ممالک سے امداد اور قرض لینے کو بھیک اور کشکولِ گدائی سمجھنے پر شرم سے اپنا سر جھکا لینے والے عمران خان نے امداد اور قرضوں کے لیے سابقہ حکومتوں سے کہیں زیادہ جھک کر کام لیا۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ جب جب مہنگائی بڑھتی ہے اور عوام پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو اس کا مطلب حکمرانوں کی نااہلی ہوتی ہے کیونکہ مہنگائی اور ٹیکس کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنے کو وہ انتہائی ناکام طرزِ حکمرانی سمجھتے تھے۔ لیکن اب مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار نے سابقہ سبھی ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔

لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان کا طرزِ حکمرانی فسطائیت سے ملتا جلتا ہے، جسے جمہوری طرزِ حکمرانی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ عمران خان کو سلیکشن کے ذریعے حکومت تو مل گئی۔ لیکن جیسا کہ الیکشن میں مینڈیٹ کا اعتماد حکمران جماعت کے پاس ہوتا ہے، عمران خان اس سے عاری ہیں اور ایک کسک اور احساسِ محرومی ہے کہ ہر پل اُنھیں ستائے جا رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں انہیں وہی عزت و تکریم دیں جو ایک الیکشن میں فاتح جماعت کو دی جاتی ہے۔ لیکن جب اپوزیشن جماعتیں انہیں وہ عزت و تکریم نہیں دیتیں بلکہ سلیکٹڈ کے طعنوں سے نوازتی ہیں تو ان کا غصہ اور جھنجھلاہٹ بڑھ جاتے ہیں۔

غصے میں آ کر وہ اپنی تقریروں میں اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کا کہتے ہیں۔ حالانکہ ان سے این آر او کوئی مانگ بھی نہیں رہا۔ لیکن اُن کی انا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ہاتھ باندھ کر ان سے این آر او مانگیں اور وہ نخرے دکھا کر انہیں این آر او دیں تاکہ اپنا راستہ بالکل صاف کر سکیں۔ لیکن ماسوائے چند مقدمات زدہ سیاستدانوں کے جنھوں نے اُن نے این آر او مانگا اور انہوں نے انہیں نہ صرف یہ کہ بخوشی این آر او دے دیا بلکہ اپنی جماعت تحریکِ انصاف میں جگہ دے کر عہدوں سے بھی نوازا۔ لیکن جو سیاستدان عمران خان سے این آر مانگنا بھی جمہوریت کی توہین سمجھتے ہیں ان پر عمران خان بُری طرح برس رہے ہیں اور انہیں جعلی مقدمات میں پھنسا کر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ انہیں وزیراعظم تسلیم کرتے ہوئے اُن سے این آر او مانگیں۔ ان کا غصہ اور جھنجھلاہٹ اس حد تک ہے کہ انہوں نے امریکہ میں بھی یہ بیان دیا ہے کہ وہ نواز شریف کے کمرے سے ایئرکنڈیشنر اور ٹیلی ویژن ہٹوا دیں گے۔

عمران خان کے دورہ امریکہ پر تحریکِ انصاف والے انہیں فاتح واشنگٹن قرار دے رہے ہیں جبکہ عمران خان خود اپنے دورے کو 1992 کی طرح کا ایک اور ورلڈ کپ جیتنا سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے پاکستان کو ایک بار پھر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ ٹرمپ نے تو اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان پر پندرہ سال تک جھوٹ اور دھوکے بازی سے امریکی ڈالرز ہتھیانے کا الزام لگایا تھا۔ لیکن اب ٹرمپ افغانستان میں مسلسل ناکامی اور شکست کے بعد اگلے انتخابات سے پہلے اپنی فوجیں افغانستان سے نکال کر اپنی قوم کا دل جیتنا چاہتے ہیں۔ اس کام میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر امریکہ کو یہاں سے محفوظ راستہ فراہم کروا دے گا۔ جبکہ امریکہ کے جانے کے بعد ہو سکتا ہے کہ روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد کی طرح کی خانہ جنگی شروع ہو جائے جس کا ملبہ پاکستان پر گرے گا۔ لیکن عمران خان یہ سب باتیں سوچے بغیر اس بات سے خوش ہیں کہ امریکہ بہادر نے اُنہیں پاکستان کا حکمران سمجھا اور عزت دی ہے۔ ان کے خیال میں ٹرمپ اُن کی حکومت سے راضی ہیں۔

حالات کی سنگینی اور خطرات کو بھانپتے ہوئے ملک بھر کے سنجیدہ حلقے شدید تشویش کا شکار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ایسی اصلاحات کی جائیں جن کے تحت عوامی مینڈیٹ چرائے بغیر اقتدار کا پُرامن انتقال ہو سکے۔ جبکہ عوامی مینڈیٹ کی حامل حکمران جماعت کو حزبِ مخالف کو ساتھ ملا کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو اقتدارِ اعلیٰ کا مرکز سمجھتے ہوئے ہر ایک کی آزادی کا خیال رکھنا ہوگا۔ پاکستان کے ہر ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرہ اختیار کے مطابق کام کرنا چاہیے اور کسی دوسرے کے کام میں بے جا مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

سنجیدہ حلقوں کی تشویش اور خواہش تو بالکل درست اور بجا ہے لیکن محض خواب و خیال سے کبھی حالات نہیں بدلتے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا اور ہر بار ایک ہی کہانی دہرائے جانے کو روکنا ہوگا۔ جس کے لیے کسی خونی انقلاب کی ضرورت نہیں بلکہ ہوش اورعقل سے کام لیتے ہوئے پُرامن جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور ملکی اور بین الاقوامی حالات کا شعور حاصل کرنا ہوگا۔ کیونکہ صرف یہی ایک صورت ہے کہ ہم اقوامِ عالم میں اپنا ایک مقام بنا سکیں۔

سید حسن رضا نقوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید حسن رضا نقوی

‎حسن نقوی تحقیقاتی صحافی کے طور پر متعدد بین الاقوامی اور قومی ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رہے ہیں، سیاست، دہشت گردی، شدت پسندی، عسکریت پسند گروہ اور سکیورٹی معاملات ان کے خصوصی موضوعات ہیں، آج کل بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں

syed-hassan-raza-naqvi has 10 posts and counting.See all posts by syed-hassan-raza-naqvi