آخر راولپنڈی ہی کیوں؟


اگر پاکستان کی 73 سالہ تاریخ کے اوراق کو کھولا جائے تو ہمیں دو قسم کے لوگ ملیں گے جنہیں کسی نہ کسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے، کچھ لوگوں کا نام زبان پر آتے ہی ان کے لیے تعریف کے ساتھ دعا بھی دل سے نکل جاتی ہے جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ذکر ہوتے ہی بددعا اور لعنتیں خود بہ خود زبان سے نکل ہی جاتی ہیں۔

ایسے ہی بہترین انسانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح، قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سر فہرست ہیں تاہم بدکردار لوگوں میں ضیاءالحق اور پرویز مشرف اول نمبر پر ہوں گے۔

یوں تو پاکستان میں 132 اضلاع ہیں پر ایک شہر ایسا بھی ہے جو کافی اہمیت کا حامل ہے، یا اگر میں یوں کہوں کہ اس شہر نے ہمیشہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی تو غلط نہ ہوگا، کئی ایسے سانحات اس شہر سے جڑے ہیں کہ اس شہر کا نام زبان پر آتے ہی غم و غصے والی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اس شہر کا نام ہے راولپنڈی جہاں سے کبھی بھی خیر کی خبر نہیں آئی، پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان سے لے کر پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس ہی شہر میں شہید کردیا گیا، یہ شہر قیام پاکستان سے لے کر اب تک عوام کو زخم دیتا ہوا ہوا آیا ہے، وہ راولپنڈی میں واقع اڈیالا جیل ہی تھا جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کردیا گیا، یہ شہر ہم سے تین عوام دوست وزیراعظم چھین چکا ہے، پر افسوس کی بات ہے کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا شاید اس شہر نے پاکستان کو دکھ دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔

نیازی کا نیا پاکستان بنے غالباً ایک سال ہونے کو ہے پر سوائے انتقام کی آگ کہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی کسی بھی میدان میں نظر نہیں آتی، حکومت میں آنے کے بعد عمران نیازی میں جیسے سیف الرحمان کی روح آ گئی ہو ایک ایک کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کا کالا قانون برووکار لاتے ہوئے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے، جبکہ اس حالیہ انتقام کو عملی شکل دینے کے لیے پھر اس ہی شہر کا انتخاب کیا گیا جس نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پر جعلی بنک اکاؤنٹ کا کیس 2015 میں شروع ہوا جس کی تحقیقات ایف آئی اے نے کی پر چار سال گزرنے کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ادارے کو کوئی ثبوت نہیں مل سکا پر نہ جانے کس بنیاد یہ کیس کراچی سے راولپنڈی منتقل کردیا گیا، پتا نہیں وہ کون سی منطق تھی کہ یہ کیس ایف آئی اے سے واپس لے کر نیب کے حوالے کردیا گیا، کیس کراچی کا عدالتیں کراچی کی، ملوث افراد کا تعلق بھی سندھ سے پر عجیب و غریب فیصلے کی بنیاد پر کیس کو پنڈی منتقل کر کے ہمیں ایک بار پھر یہ احساس دلایا گیا کہ یہ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی سے خالص انتقام لینے کے لئے ہی یہ فیصلہ کیا گیا، اس شہر سے تھوڑا ہی دور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو بھی نیب نے بغیر کسی نوٹس کے گرفتار کر لیا گیا جبکہ کراچی میں چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے ایسے چھان بین کی گئی جیسے آغا سراج درانی کوئی ڈاکو ہو، خواتین تک کا احترام نہیں کیا گیا، معصوم بچوں کو بھی ہتھیار کے زور پر یرغمال بنایا گیا، پر افسوس کہ نیب جو عیب میں تبدیل ہوگئی ہے اسے ان سب باتوں سے کیا لینا دینا۔

بقول چیئرمین پیپلزپارٹی کے کہ ”راولپنڈی بھٹو خاندان کے لیے کربلا سے کم نہیں“ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ شہر بھٹو خاندان سمیت پاکستان کی عوام کے لیے کربلا ثابت ہوا ہے۔ مسلسل عدالت و قانون کی پاسداری کرنے کے باوجود، عدالت کے ہر نوٹس پر پہنچ کر یہ ثابت کرنا کہ ”ہمیں عدالتوں پر مکمل اعتماد ہے“ نیب سے تحفظات کے باوجود آصف علی زرداری ہر دفعہ پیش ہوکر ثابت کرتے رہے کہ ہمیں اپنے اداروں پر بھی اعتماد ہے، یہ وہی صدر زرداری ہیں جنہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، 18 ویں آئینی ترمیم کر کے صوبوں کو خودمختاری دی، بطور صدر انہوں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے، سی پیک جیسے شاہکار پراجیکٹ شروع کرنا زرداری صاحب کے اکاؤنٹ میں ہی جاتا ہے، پر نہ جانے کیوں ان پر جعلی بنک اکاؤنٹ کا جعلی کیس بنایا گیا پہلے بھی جعلی کیس بنائے گئے پر زرداری صاحب سرخرو ہوئے جبکہ بحیثیت سیاست کے طالب علم کے مجھے امید ہے کہ زرداری صاحب اس بار بھی سر خرو ہی ہوں گے۔

سلیکٹڈ حکومت کا سلیکٹڈ احتساب جو اب انتقام کا روپ اختیار کر چکا، نیب جو اب عیب بن چکا ہے صرف اور صرف اپوزیشن کو ڈرانے و دھمکانے کا کام کر رہا، منتخب نمائندوں کو جیل میں ڈال کر ان کی آواز دبانا ہی اس حکومت کا زیور بن چکا، جبکہ بقول بلاول بھٹو زرداری کے کہ اس حکومت کو ہر چیز سلیکٹڈ چاہیے، اپوزیشن، میڈیا، وزراء اور مینڈیٹ بھی یہ لوگ سلیکٹڈ لے کر بیٹھے ہیں۔

میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ یہ شہر اپنی روایات تبدیل ضرور کرے گا، اور اس دفعہ فتح حق اور سچ کی ہوگی کیونکہ جھوٹ اور سازشیں زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں، اور اس شہر کا جب بھی نام زبان پر آئے تو اپنی اصل پہچان راول کے پنڈ کے طور پر ہی پہچانا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).