ہانگ کانگ: چھنتی ہوئی بنیادی آزادیاں


عوامی جمہوریہ چین کے جنوب میں واقع ہانگ کانگ کئی چھوٹے جزائر پر مشتمل ایک نیم آزاد خطہ ہے۔ 1842 میں افیون کے خلاف پہلی جنگ کے دوران ہانگ کانگ آئی لینڈ تاج برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ 1856 میں کولون اور یکم جولائی 1898 میں کئی چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل نیو ٹیریٹریز بشمول کوائے چنگ، شین وان، تائی پو بھی ایک معاہدے کے تحت 99 سال کی لیز پر تاج برطانیہ نے چین سے لے کر اپنی کالونی میں شامل کر لیے تھے۔

1940 کی دہائی میں چینگ کائی شیک کی کومنتانگ حکومت کے خلاف ماوزے تنگ کی قیادت میں ہونے والے تاریخی لانگ مارچ اور اس کے نتیجے میں جمہوریہ چین (آج کا تائیوان) اور عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی اور عسکری جنگ میں ہانگ کانگ نیوٹرل رہا۔ یکم جولائی 1997 کو ایک معاہدے کے تحت تاج برطانیہ نے ہانگ کانگ کو واپس چائنہ کے حوالے کیا۔ لیکن 50 سالہ خودمختاری کی ضمانت لی۔ یوں ہانگ کانگ بظاہر عوامی جمہوریہ چین کا حصہ لیکن اندرونی طور پر مکمل خودمختار ملک تصور کیا جاتا ہے۔ جس کا اپنا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ، مالیاتی ادارے، امیگریشن، کرنسی اور عدالتی نظام عوامی جمہوریہ چین سے بالکل الگ ہے۔

بنیادی انسانی آزادیوں، معاشی خوشحالی، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، املاک اور زندگی کی حفاظت کی ضمانت کے اعتبار سے یہ چھوٹا سا ملک ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ صرف 427 مربع میل رقبے کے حامل اس ملک میں کم و بیش ساڑھے سات ملین لوگ آباد ہیں۔ جن میں نوے فیصد چینی النسل اور 10 فیصد دنیا کی دیگر اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا ترین بھی ہے۔ زندگی کی سہولیات کے اعتبار سے یقینی طور پر ہانگ کانگ دنیا کے چند اولین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

جہاں کی اوسط فی کس آمدنی 65 ہزار امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دنیا میں ہانگ کانگ اپنی بلند و بالا عمارات، صفائی، تحفظ، تیز ترین ریلوے سسٹم، زہر زمین اور زیر آب سب ویز کے ساتھ ساتھ ”ورلڈ فنانشل اینڈ بزنس سنٹر“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا پرامن ملک ہے جہاں پر سٹریٹ کرائمز نہ ہونے کے برابر ہیں اور حکومت کی طرف سے صحت، تعلیم اور روزگار کی معیاری سہولیات اسے ممتاز بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر مشہور متعدد برانڈز کے مارکیٹنگ اور فنانشل سنٹرز ہانگ کانگ میں ہیں۔

گزشتہ چھ ہفتے سے ہانگ کانگ کے عوام آور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے درمیان ایک متنازعہ ایکسٹراڈیشن بل کو لے کر تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بیجنگ حکومت ہانگ کانگ کی اسمبلی سے ایک قانون منظور کروانا چاہتی ہے جس کے بعد چین سے ہجرت کر کے ہانگ کانگ میں آباد ہونے والوں کو چینی پولیس پوچھ گچھ کی غرض سے واپس چین لے جا سکتی ہے اور ایسے میں ہانگ کانگ حکومت قانونی طور پر چین سے آ کر ہانگ کانگ میں آباد ہونے والوں کو قانونی تحفظ نہیں دے سکے گی۔

قانون ساز اسمبلی میں بحث کے لیے یہ بل گورنر کیری لیم نے پیش کیا ہی تھا کہ ہانگ کانگ کے آزادی پسند عوام، وکلا تنظیمیں، طلبا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا۔ ایک موقع پر بیس لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر نکل آئے جو ہانگ کانگ کی مجموعی آبادی کا تیس فیصد بنتا ہے۔ نوجوانوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر بھی قبضہ کر لیا اور گورنر سے بل کی واپسی اور عوام سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔ شدید دباؤ کے نتیجے میں بالآخر گورنر کیری لیم نے متنازعہ بل واپس لے لیا اور پولیس کے رویے پر عوام سے معافی مانگ لی

لیکن پس پردہ بیجنگ اور گورنر کیری لیم مظاہرین کو سبق سکھانے کے لیے متبادل طریقوں پر منصوبہ بندی کرتے رہے۔ چینی حکومت عالمی سطح پر اسے اپنی شکست اور حزیمت تصور کرتی ہے وہ اس لیے کہ ہانگ کانگ کی آبادی چین کی مجموعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اتنی کم آبادی کی طرف سے عوامی جمہوریہ چین جیسی فوجی، معاشی اور سیاسی طاقت کو جمہوری شکست کو چین اتنی آسانی سے بھولنے والا نہیں۔ لہذا طاقت کے وہی پرانے طریقے یہاں بھی آزمائے جا رہے ہیں۔

جس میں تقسیم کرو اور حکومت کرو بھی شامل ہے۔ جمہوری اور سیاسی آزادیوں کے لیے مظاہروں کے مقابلے میں گورنمنٹ نے اپنے مظاہرین بھی تیار کر لیے ہیں لیکن تعداد میں نہ ہونے کے برابر۔ چین مخالف مظاہرین بلیک شرٹ مظاہرین کے نام سے مشہور ہیں۔ حکومت کے حامی سفید شرٹس پہن کر نکل پڑے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے میں سفید شرٹ والوں نے کئی عوامی مقامات پر خوف پھیلانے کے لیے مسلح حملے بھی کیے ہیں جس کا واضع مقصد عوام کو حکومت مخالف مظاہروں سے دور رکھنا اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق چینی حکومت کے سامنے ہانگ کانگ کی آزادی کو ہر صورت میں سرنڈر کروانا ہے۔

کئی دہائیوں بعد ہانگ کانگ جیسے پرامن اور محفوظ ملک میں لوگ خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ وہ ملک جو دن اور رات کے کسی بھی پہر محفوظ ترین ملک تصور کیا جاتا تھا۔ جہاں لوگ بلا خوف و خطر معمولات زندگی انجام دیتے تھے۔ وہ آج اپنے ہی ملک میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں اور سیاحتی صنعت متاثر ہو رہی ہے۔ اور امن پسند ”ہانگ کانگرز“ نے انفرادی طور پر دوسرے ممالک میں ہجرت کرنا شروع کر دی ہے۔ چونکہ خوف اور تصادم کا ماحول ان کے لیے بالکل نیا ہے۔

وہ آزاد فضا میں پلے بڑھے ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی، انصاف کی شفاف دستیابی، معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں، صفائی ستھرائی کے اعلی نظام سے لے کر تحفظ کے احساس تک ہر چیز بہترین تھی۔ اب ان قدروں کو ہانگ کانگ میں شدید خطرہ ہے۔ اور ڈر ہے کہ 2047 آنے سے بہت پہلے ہانگ کانگ کی آزادی چھن جائے گی۔ انسانی حقوق، معاشی خوشحالی اور سماجی اقدار میں بلند ساکھ رکھنے والا ایک اور خوبصورت ملک عالمی مالیاتی سرمائے اور سیاسی ہوس کی بھینٹ چڑھائے جانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).