ایکسٹینشن


بجلی کی مدد سے چلنے والی اشیا کا روزمرہ استعمال تقریباً ہر گھر میں ہوتا ہے۔ عام طور پر گھر کے ہر کمرے میں بجلی کے پوائنٹ بھی موجود ہوتے ہیں جن میں پلگ کی مدد سے بجلی کے تار لگا کر ہم بجلی سے چلنے والے آلات استعمال کرتے ہیں۔

لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات گھر میں موجود کچھ الیکٹرانک اشیا کو استعمال کرنے کے لیے ایکسٹینشن کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے بھی چلنے کے لیے ایکسٹینشن استعمال کی تھی لیکن وہ ایکسٹینشن کچھ اور قسم کی تھی۔

اپنے قارئین کی سہولت کے لیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ ایکسٹینشن کا مطلب کسی چیز کا/کو بڑھانا یا کسی مدت میں اضافہ کرنا بھی ہوتا ہے۔ لیکن ہماری مراد بجلی کا وہ لمبا تار ہے جس کے ایک سرے پر پلگ اور دوسرے سرے پر ایک ایسا ڈبہ ہوتا ہے جس میں ایک سے زیادہ بجلی کے پلگ لگانے کی سہولت دی گئی ہوتی ہے۔

ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ یوں تو ہمارے گھر کے ہر کمرے میں بجلی کے تین تین پوائنٹ مختلف دیواروں پر موجود ہیں جن کی وجہ سے الیکٹرانکس کے آلات کے استعمال میں سہولت رہتی ہے لیکن بجلی کے پوائنٹس کی وافر موجودگی کے باوجود گاہے ایسی نوبت آ جاتی ہے جب لامحالہ ایکسٹینشن کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

تین دن قبل یعنی ہفتہ کی رات کو اپنے پلنگ کے ساتھ ملحقہ چھوٹی میز پر لیپ ٹاپ رکھا۔ یوں تو ہمارا لیپ ٹاپ تقریباً نیا ہی ہے اور دیکھنے میں کافی ہینڈسم بھی ہے لیکن کارکردگی کے معاملے میں اس کا مزاج لا ابالی سا ہے۔ اگر لیپ ٹاپ کے ساتھ چارجنگ اڈاپٹر نا لگایا ہو تو اس کی تصویر دھندلا جاتی ہے اور کبھی اس کی اسکرین جھماکے مارنے لگتی ہے۔ کبھی ہمارا لیپ ٹاپ چلتے چلے بند ہو جاتا ہے تو کبھی اتنا آہستہ ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ وارنٹی کے پانچ سال تو کیا یہ دو سال بھی نہیں نکال پائے گا۔ ایسے میں صرف بیٹری پر اکتفا کر کے لیپ ٹاپ نہیں چلایا جا سکتا۔ بجلی کی ضرورت لازم ہو جاتی ہے۔

اسی مجبوری کے تحت ہم نے پلنگ کے بائیں طرف موجود بجلی کے پوائنٹ میں لیپ ٹاپ کے چارجنگ اڈاپٹر کا پلگ لگایا لیکن لیپ ٹاپ کے چارجنگ والے بٹن پر روشنی نمودار نا ہوئی۔ کچھ دیر سوئچ کو آن آف کر کے اور پلگ کو بار بار اتار کر لگانے کے بعد بھی جب جارجنگ والی روشنی تاریک رہی تو پریشانی ہوئی۔ اگر لیپ ٹاپ آن ہی نا ہوتا یا آن ہو کر کچھ دیر میں آف ہو جاتا تو ملک میں جمہوریت کو درپیش خطرات کی آگاہی اور ان کے سدباب کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر جاری بحث سے ہم محروم ہو جاتے۔ یہ ہم جیسے جمہوریت پسند کے لیے نقصان عظیم ہوتا۔

چناچہ اسی پریشانی میں ہمیں ایکسٹینشن کا خیال آیا۔ ہم نے سوچا کہ کمرے میں موجود بجلی کے دوسرے پوائنٹ سے ایکسٹینشن لگا کر ہم اپنا لیپ ٹاپ پلنگ پر بیٹھ کر استعمال کر سکتے ہیں۔ چناچہ ہم نے الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں سے تین سال قبل خریدی ہوئی لمبی اور مضبوط تار والی ایکسٹینشن نکال لی۔

ہم نے خوشی خوشی ایکسٹینشن کا پلگ بجلی کو دوسرے پوائنٹ میں لگایا اور سوئچ آن کر دیا۔ دوسرے ہی لمحے گھر کی تمام روشن بتیوں نے جھماکے مارنے شروع کر دیے۔ پنکھوں میں سے گھوں گھوں کی پراسرار آوازیں آنے لگیں۔ ٹیلی ویژن سسکیاں بھرنے لگا اور فریج نے ہچکیاں لینی شروع کر دیں۔ ہم دم بخود رہ گئے۔ ہماری اہلیہ نے ایک چیخ ماری اور والدہ محترمہ نے جل تو جلال تو کا ورد شروع کر دیا۔ چند لمحے تک تو ہم بھونچکے ہوئے یہ ڈسکو لائٹس کا تماشا دیکھتے رہے پھر بوکھلا کر چھلانگ لگائی اور ایکٹینشن کا پلگ کھینچ لیا۔ یوں لگا جیسے زمانے کی گردش تھم گئی ہو۔ پھر ایک ہلکے سے دھماکے کے ساتھ اندھیرا چھا گیا۔

وہ رات ہم نے ایسے ہی کاٹی جیسے وطن عزیز میں آمریت کی راتیں کٹتی رہی ہیں۔ اگلی صبح الیکٹریشن کو طلب کیا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ الیکٹریشن نے آ کر پورے گھر کی وائرنگ کا جائزہ لیا اور پھر بتایا کہ تین سال پرانی تار کی ایکسٹینشن استعمال کرنے سے گھر کو بجلی سپلائی کرنے والی مرکزی تار جل گئی ہے۔ مرتے کیا نا کرتے، جمہوریت کے فیض پانے کے لیے بجلی کی نئی تار لگانی ضروری تھی سو لگوائی۔ لیکن ایک سبق ہمیشہ کے لیے حاصل ہو گیا کہ لیپ ٹاپ چلانے کے لیے بجلی کا پوائنٹ ہی ٹھیک رہتا ہے۔ ایکسٹینشن کا استعمال تباہ کن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad