گپ: غریب کا پردہ اور حکمران کا دھندا


ہمارے ایک بہت ہی مہربان، جن سے ہمیشہ راہنمائی ملی اور موصوف علمی گفتگو کے فن میں بے مِثل، اپنی کم گوئی کے باوجود سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے جب کبھی کسی احباب کی لاف زنی، یاوہ گوئی یا پھڑ بازی کا تذکرہ جملہ معترضہ کے طور پر دوران گفتگو آ جاتا تو دھیمے سُروں میں بات کو سمجھاتے کہ آپ کو اس کو بات سے کیا زِک پہنچتی ہے کہ اگر کوئی پھڑ بازی یعنی گپ مارکے یا لمبی لمبی چھوڑ کے اپنا کتھارسس یا اخراج کرلیتا ہے اور آپ بھی اُسکے لاف زنی کے فعل سے واقف ہو تو ”تحقیقی رعایت“ سے کام لے کر کسی غریب کی سُن لیا کرو اور سوالات کی بھٹی سے ایسے لوگوں کو نہ گذارا کرو اور اکثر ضمناً جب بھی ایسے کسی کردار کا ذکر آتا۔ تو فرماتے کہ یہ ”جو گپ ہوتی ہے نہ یہ غریب کا پردہ ہوتی ہے“

گپ بازی اب تھڑوں، چائے خانوں، چوپالوں، محلے کے چوراہوں، سیاسی و سرکاری ورکرز سے سفر کرتی غریب مُلک کے حاکم کا وتیرہ بن چکی ہے۔ موصوف دھرنوں میں پھڑ بازی کر کے لیڈری چمکا کر اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہونے میں تو کامیاب ہوگئے۔ کنٹینر پر کھڑے ہوکر کی گئی تقریریں گلے کی ہڈی بن گئی ہیں۔ عوام کو دلچسپی ہے مسائل کے حل ہونے اور خوشحال ترقی کرتا پاکستان دیکھنے کی۔ مگر اقتدار میں آکر حاکم وقت کے عوام سے کیے وعدے خواب کی تعبیر بننے کی بجائے معکوس سمت میں جاتے ہوئے ریاست کو تباہی کی طرف دھکیلنے کا عمل کررہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں و کرپشن کہانیوں کی بنا پر بالخصوص نوجوان طبقہ اور سادہ عوام بہم خبریں پہنچانے کے اداروں سے مُتاثر ہوکر موجودہ حکومت کی تشکیل پانے کا سبب بنے۔

تبدیلی، نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے فلک شگاف نعروں کے حصار میں اپنا حق رائے دہی تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دینے کے بعد اب پچھتاوے میں ہیں اور غلطی بھی ایسی کر بیٹھے ہیں کہ خمیازہ بھگتنے کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی اس مشکل سے نکلنے کی۔ منتظر معجزہ کے لئے عرض ہے کہ اب اس کا حل احمد ندیم قاسمی صاحب کے افسانہ ”سفارش“ کے کردار فیکا کوچوان کی آنکھ کا علاج جیسے حالات کی بنا پر ہوگا۔ اب ریاست کا علاج بمثل فیکا کوچوان یعنی خدا ایسے حالات پیدا کردے تو شاید ریاست کا سفر بہتری کی طرف شروع ہو جائے۔

شنید ہے کہ دورہ امریکہ سخت ہدایات پر مبنی اور خطہ میں ہمسایوں کے ساتھ دیرپا امن اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور افغان داخلی امور میں دخل اندازی سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا پڑیگا۔ سیاست بارے علامہ اقبال نے بالِ جبریل میں بعنوان نظم ”سیاست“ خفیہ کردار کا بہت خوبصورت تعارف پیش کیا ہے۔

اس کھیل میں تعینِ مراتب ہے ضروری

شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، مٙیں پیادہ

بیچارہ پیادہ تو ہے اک مُہرۂ نا چیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

حاکم ریاست نے ماضی قریب اور حالیہ تقاریر میں عوام کو جو خواب دکھا ئے ہیں ہمارا مطالبہ عوام سے یہ ہے کہ دیوانے کی بڑ اور غریب کی گپ سمجھ کر لیڈر کے ساتھ رعایت کریں اور کتھارسس یا اخراج کو آئندہ بھی سنجیدہ نہ لیا جائے۔ اب لیڈر اگر فرط جذبات میں خود ساختہ ایمانداری کی بنیاد پر خوشحالی، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر وغیرہ وغیرہ کے سہانے سپنے اگر بانٹ ہی بیٹھا ہے۔ تو اسے درخور اعتنا نہ سمجھا جائے۔

عوام بھی ان نعروں کو غریب ملک کے غریب حاکم کی نا تجربہ کاری پر محمول کرتے ہوئے پردہ پوشی کریں اور حاکم ریاست ملک میں موجود گھمبیر مسائل تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی، پابندی اظہار وغیرہ کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ مُلک خوشحالی کی طرف خود بخود گامزن ہونا شروع کر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).