محنت مزدوری کی سچی کہانی


\"naseerآج سے پینتیس (35) سال پہلے کا زمانہ تھا۔ میں اسلام آباد میں ایک تعمیراتی منصوبہ پر بطورِ سائٹ انجینئر کام کرتا تھا۔ ایک روز دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ آفس بوائے ایک خستہ حال شخص کو اندر لے کر آیا۔ اس شخص کا لباس میلا اور پھٹا ہوا تھا، چہرہ کمزور اور زرد تھا اور شیو بڑھی ہوئی تھی۔ میں ابھی آفس بوائے کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص خود ہی مریل سی آواز میں بول اٹھا۔ \”سر کام کی تلاش میں آیا ہوں، جگہ جگہ دھکے کھا رہا ہوں، کئی دنوں سے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھایا۔ میں کوئی مانگنے والا نہیں بس مجھے کام پر لگا لیجیے۔\” میں نے پوچھا کیا کام کر لیتے ہو۔ کہنے لگا \”کچھ بھی کر لوں گا، کسی مزدوری پر لگا لیجیے لیکن انکار نہ کیجیے ویسے اسٹیل فکسنگ کا کام جانتا ہوں۔\” اُس کی حالت اور انداز بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ مجھے اُس کے چہرے پر سچ کی پرچھائیں نظر آئی۔ میں نے اسے بتایا کہ ہمارا پرجیکٹ تکمیل کے قریب ہے اور ہم کوئی مزید بھرتی کے بجائے کاریگروں اور مزدوروں کو کام سے فارغ کر رہے ہیں یا اگلے منصوبوں پہ تعینات کر رہے ہیں۔ یہ سن کر اس کے چہرے پر ایک عجیب بے بسی اور مایوسی پھیل گئی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اسے کام نہ ملا تو اس کی بچی کچھی امید اور توانائی یہیں کھڑے کھڑے ختم ہو جائے گی۔ ہمارے پاس اسٹیل فکسنگ کا چھوٹا موٹا کام ابھی رہتا تھا جس کی طرف بڑا ٹھیکیدار توجہ نہیں دے رہا تھا۔ میں نے خلافِ ضابطہ ایک فیصلہ کیا اور اسے کہا کہ وہ کل سے آ کر یہ تھوڑا بہت باقی ماندہ کام شروع کر لے۔ آفس بوائے کو اسے قریبی کھوکھے سے کھانا کھلانے کے لیے کہا اور اکاؤنٹ والوں سے بڑی بحث کے بعد ذاتی گارنٹی پر چند سو روپے ایڈوانس بھی دلا دیے کیونکہ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی جیب بالکل خالی تھی۔ میرا بہت جی چاہا کہ اپنے پاس سے بھی اُس کی مدد کروں تا کہ وہ کم از کم اپنا حلیہ تو ٹھیک کر سکے لیکن مہینے کے آخری دن تھے اور میری اپنی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ شام کو کسی دوست کے ساتھ کافی یا چائے پینے جا سکتا یا کوئی کتاب پسند آنے کی صورت میں خرید پاتا۔ اُس نے اپنا نام سرور بتایا تھا۔

اگلے روز سرور اپنے اوزار لے کر پہنچ گیا اور کام شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ایک کم عمر ہیلپر بھی تھا۔ دو تین ہفتوں میں اِدھر اُدھر بکھرا ہوا بچا بچایا کام ختم ہو گیا جس کے تھوڑے سے پیسے بنے جو اسے ادا کردیے گئے۔ اکاؤنٹ آفس سے اپنے بل کی رقم لے کر وہ پھر میرے دفتر آ گیا اور مسکین صورت بنا کر کھڑا ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب وہ مزید کام کا خواہاں تھا اور جیسے اسے یقین تھا کہ میں اُس کی مدد ضرور کروں گا۔ اُن دنوں اسلام آباد میں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ اُس وقت تک بلیو ایریا میں کوئی پلازہ وغیرہ نہیں بنا تھا۔ اور شاہ فیصل مسجد، ہالیڈے ان ہوٹل، ایچ بی ایف سی کی انیس منزلہ عمارت، پارلیمنٹ ہاؤس، پریزیڈنٹ ہاؤس، بلوچستان ہاؤس اور کئی دیگر بڑے منصوبے زیرِ تکمیل تھے۔ ان سب جگہوں پر میرا کوئی نہ کوئی دوست، کلاس فیلو یا واقف کار تھا۔ میں نے سب سے سرور کے لیے کام کے بارے میں کہا۔ ہمارے پراجیکٹ کے سامنے ایک اور بڑی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ وہاں ایک انجینئر میرا اچھا واقف تھا، بالآخر اُس کے ذریعے سرور کو وہاں اسٹیل فکسنگ کا پہلا بڑا کام مل گیا۔ چند ماہ تک وہ کبھی کبھار مجھ سے ملنے آتا رہا۔ اب اُس کا لباس اور صحت پہلے سے بہتر تھی اور وہ اپنے کام سے مطمئن اور خوش نظر آتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ مجھے اور میں اُسے بھول گیا۔ پھر میں نے اسلام آباد کو خیر باد کہا اور تلاشِ رزق میں دیارِ غیر نکل گیا۔

برسوں بعد جب میں کسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد آیا تو دیکھا کہ شہر بالکل بدلا ہوا اور بلیو ایریا تمام کا تمام گنجان پلازوں، اونچی اونچی عمارتوں اور جدید کاروباری مراکز سے بھرا ہوا تھا۔ میں پرانی یادوں کو تازہ کرنے سپر مارکیٹ میں گھوم رہا تھا کہ کسی نے مجھے پیچھے سے دھیمے لہجے میں آواز دی، ’’نصیر صاحب!‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو کوئی شناسا چہرہ نظر نہ آیا اور آگے چل دیا۔ پھر کسی نے قدرے بلند آواز میں میرا نام پکارا اور ایک انتہائی خوش لباس، گورا چٹا صحت مند شخص تیزی سے میری طرف آیا اور مسکرا کر کہنے لگا ’’ سر مجھے پہچانا‘‘ ۔ مجھے تذبذب میں دیکھ کر خود ہی بول پڑا ’’ میں سرور ہوں، وہی سرور جسے آپ نے اسٹیل فکسنگ کے کام پہ لگایا تھا، ایڈوانس پیسے دلائے تھے اور کھانا کھلایا تھا۔ ‘‘ اُسے جیسے خود ہی سب کچھ بتانے کی جلدی تھی۔ ’’اگر آپ اُس دن کام پہ نہ لگاتے تو شاید میں خود کشی کر لیتا، میں تین دن سے بھوکا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھ سے لپٹ گیا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔ میں حیران پریشان تھا کہ اُس نے مجھے پہچان کیسے لیا۔ ایک لمحے کے لیے ہم دونوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اُس نے اسلام آباد کی کسی اعلی لانڈری کا دُھلا ہوا بے شکن لباس پہن رکھا تھا اور ساتھ دو اور آدمی تھے جو تھوڑا پیچھے اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ ایک گارڈ تھا اور دوسرا اپنے مؤدبانہ انداز سے اس کا معتمدِ خاص لگ رہا تھا۔ یقین مانیے میں اپنے لباس اور حلیے سے اُس کے سامنے اُس کا چپڑاسی لگ رہا تھا۔ ’’میں نے آپ کے جانے کے بعد اسٹیل فکسنگ کے بڑے بڑے ٹھیکے لیے، پھر پوری پوری عمارتوں کا ٹھیکہ لیا، بلیو ایریا میں کئی پلازے تعمیر کیے، اب میں خود پلازوں کا مالک ہوں، کئی گاڑیاں ہیں اور اسلام آباد میں اپنا شاندار گھر ہے۔‘‘ وہ میرے پوچھے بغیر اپنے بارے میں تیزی سے بتاتا رہا۔ مجھے سالوں پہلے دفتر میں خاموشی سے سر جھکائے کھڑا، زندگی سے ہارا ہوا سرور یاد آ گیا۔ میں نے اُس سے کوئی تفصیل پوچھی نہ کوئی اور سوال کیا کہ اتنی ترقی کیسے کر لی۔ بس انسانی محنتِ شاقہ بلکہ محنت مزدوری کے اُس مرقع کو حیرت آمیز خوشی سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے مجھے کھانے کی دعوت دی لیکن مجھ پر یادِ ایام کا غلبہ ہونے لگا تھا۔ میں نے جلدی کا بہانہ کیا اور اُس سے اجازت لی۔ میں نے چند قدم چلنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ وہیں کھڑا زیرِ مونچھ ایک محبت بھری مسکراہٹ لیے مجھے دیکھ رہا تھا۔ شاید میری سال خوردگی اور سفید بالوں پر غور کر رہا تھا، شاید میری شکن زدہ پتلون، عام سی ٹی شرٹ اور پرانی کوہاٹی چپل کو دیکھ رہا تھا یا شاید سوچ رہا تھا کہ میرے پاس گاڑی ہے یا پیادہ گرد ہوں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments