سانجھی


کرتارپور بارڈر سکھ یاتریوں کے لئے کھول دیا گیا جو بہت خوش آئند بات ہے۔ ایک تصویر دیکھی جس میں ایک سکھ یاتری چندن ( صندل) کے پودے پاکستانی سرزمین کے لئے تحفے کی خاطر لائے۔ دل خوش ہوا کہ تحفہ تو محبت کی علامت ہے۔ اس خطے نے اتنا خون خرابہ دیکھا کہ اب محبت اور امن کی بات کو دل ترس گئے ہیں۔ کرتار پور راہداری منصوبہ محبت کی راہ ہموار کرتا نظر آتا ہے۔ اس موقع پر میرا جی چاہا کہ میں بھی دونوں اطراف محبت کرنے والے دلوں کو ”سانجھی“ کا تحفہ دوں۔ یہ داستان ہے اس تصور کی جو کبھی نہ کبھی ضرور حقیقت کا روپ دھارے گا۔ ان شاللہ

تو ہوا کچھ یوں کہ مندر سنگھ اور مسرت سنگھ بھاگتے ہوئے بوہڑی ( بوہڑ کا پرانا درخت) کے نیچے پہنچے۔ رفیق اور شمی پہلے ہی وہاں تھڑے پہ بیٹھے تھے۔
او یار۔ مسرت سنگھ نے سانس درست کرنے کا وقفہ لیا تو مندر سنگھ نے بیتابی سے پوچھا: یار یہ پکی خبر ہے نا؟
رفیق نے اونچی آواز میں کہا:او ہاں یار ابھی بھی یقین نہیں تجھے؟ دیکھ ساروں کو جمع کرلیا۔ پھر وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا : اوئے ماسٹر کدھر رہ گیا؟

اتنے میں سائیکل کی گھنٹی بجاتا ماسٹر بھی آن پہنچا۔
مسرت سنگھ: پر تجھے بتایا کس نے؟
شمو کی بجائے رفیق بولا : یار وہ دینو لوہار کا لڑکا سکول سے آرہا تھا تو اس نے دیکھا تھا۔
مندر سنگھ: او یار وہ لڑکا تو جھوٹ بھی بہت بولتا یے کہیں مروا نے دے۔

شمی نے جلدی سے کہا : نہ یارا۔ یہ بات تو پکی ہے گردوارے میں توڑ پھوڑ اگر ہوئی ہے تو وہ چوہدریوں کا وہ لڑکا ہی ہے جو پہلے بھی ادھر پیشاب کر آیا تھا۔ وہ ہے ہی بڑا کمینہ۔
ماسٹر بولا: تو یہ کس نے بتایا کہ توڑ پھوڑ ہوئی ہے؟

اؤ یار ابھی بتایا تو ہے دینو لوہار کا لڑکا سکول سے آرہا تھا۔ اسی نے چوہدریوں کے لڑکے کو نشے میں دھت ادھر گردوارے میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا۔ رفیق نے جھلا کر کہا تو مسرت سنگھ نے اپنی پگ کے نیچے کھرکنا شروع کردیا اور کچھ شک والے انداز سے رفیق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ایسا کر ایک بار خود چل کر دیکھ آئیں پھر مولوں صاحب کو بتائیں گے ورنہ جھوٹی خبر پہ مولوی صاحب سب کی کھال کھینچ دیں گے۔

شمی یک دم غصے میں آگیا: اوئے گرودوارہ تمہارا ہے اور تم ہی ڈھیلے پڑے ہو۔ ہم جو کہہ رہے ہیں کہ خبر پکی ہے وہ چوہدریوں کا لڑکا کب سے گرودوارہ گرانے کے چکر میں ہے۔ تم لوگ سمجھتے کیوں نہی۔ ادھر بہت بڑا مسئلہ بننے والا ہے۔

شمی کی جذباتی تقریر سن کر ماسٹر نے کہا : شمی بات تو وہ ٹھیک کہتا ہے کہ پہلے ہم اپنی تسلی کر لیں تو گاؤں والوں کو بتائیں۔
مندر سنگھ بولا۔ اچھا تو تم لوگ مولوی صاحب کو جاکر ساری بات بتاؤ ہم اتنی دیر میں گردوارے کی خبر لے آتے ہیں۔

رفیق: او نہ یار تو پاگل ہے۔ ادھر وہ گردوارے کی اینٹ سے اینٹ بجانے پہ تلا ہے اور ادھر تمہیں دیکھ کر پتا نہی تمہارا کیا حشر کریں کیا پتا کتنے بندے ہیں اس کے ساتھ۔ تم دونوں تو بالکل نہی جاسکتے۔
ماسٹر : ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے بلکہ تم دونوں میرے ساتھ مسجد چلو یہ دونوں جاکر دیکھتے ہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔

ماسٹر مسرت سنگھ اور مندر سنگھ کو ساتھ لے کر مسجد کی طرف چل پڑا اور شمی اور رفیق جسے یہ سب فیقا کہتے تھے۔ موٹر سائیکل پہ سوار ہوکر دوسرے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ایک قدیم گرودوارہ اور اس کے ساتھ ملحقہ لنگر خانہ جو سکھوں کے ہر گرودوارے کے ساتھ عموما زائرین اور مسافروں کے لئے لنگر کے اہتمام کی خاطر قائم کیا جاتا ہے جہاں بنا تفریق رنگ و نسل روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے البتہ گاؤں میں لنگر صرف اسی وقت پکتا تھا جب کوئی گرنتھ ( سکھوں کی مذہبی کتاب ) کی زیارت کرنے آتا یا چڑھاوا چڑھانے دور دراز کا سفر کرکے آتا تھا۔

اسکے علاوہ عام تہواروں پر بھی لنگر پکتا اور گرودوارے کی رسوم و رواج کے مطابق اس کا اہتمام کیا جاتا۔ یہاں سکھوں اور مسلمانوں کے تین چار گاؤں آباد تھے جو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے اور ان کے آپس کے تعلقات بھی مثالی تھے۔

اسی لئے جب انہیں اطلاع ملی کہ چوہدری کے اوباش لڑکے نے گرودوارے کی بے حرمتی کی ہے تو مسلمان بھی اس کے خلاف احتجاج کو نکل آئے۔

ماسٹر نے مولوی صاحب کو ساری بات بتائی تو انہوں شمی اور فیقے کے آنے کا انتظار کرنے کو کہا لیکن ساتھ اپنے لڑکے کو قریبی پولیس چوکی سے رابطہ کرنے کو بھی کہہ دیا۔ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ چوہدری اور اس کا لڑکا سکھوں سے بغض و عناد رکھتے ہیں تو اس بات کا امکان تھا کہ انہوں نے ایسا کچھ ضرور کیا ہوگا جس سے ماحول خراب ہو اور انہیں سکھوں کو علاقہ سے نکالنے کا کوئی جواز مل سکے۔

مولوی صاحب نے اسپیکر پہ جاکر اعلان کیا کہ مشاورت کے لئے سب مسجد میں جمع ہوں۔ مولوی صاحب سمجھدار آدمی تھے سب بہت احتیاط سے کررہے تھے کہ گاؤں والوں میں بھی بعض شرارتی لوگ تھے تو کہیں مسئلہ خراب نہ ہوجائے۔

کچھ ہی دیر میں شمی اور فیقا بھی آن پہنچے اور گاؤں کے لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔ مولوی صاحب نے دونوں کو الگ کرکے پہلے سارا ماجرا دریافت کیا پھر گاؤں والوں کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

چاچا اسلم بولا: مولوی صاحب یہ چوہدری اور اس کے لڑکے کوئی بڑی مصیبت لے آئیں گے ہمارے گاؤں پہ۔ آئے روز کوئی نہ کوئی شیطانی کرتے ہی رہتے ہیں۔
منیر ہٹی والا بولا: چوہدری کے پاس حرام کمائی اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی فوج پوری بھرتی کی ہوئی ہے اس نے غنڈوں کی۔

میدا پہلوان اپنے بازو پہ ہاتھ مارتے ہوئے آگے بڑھا : اوئے ایسی کی تیسی چوہدری اور اس کے غنڈوں کی۔ آج اس کی پسلیاں نہ توڑ دیں تو میدا پہلوان نام نہیں میرا!
گاؤں کے مختلف لوگ مختلف انداز سے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ لیکن مولوی صاحب کسی وجہ سے انہیں ابھی اس طرف چلنے کو نہیں کہہ رہے تھے۔

پھر سب نے دیکھا کہ پولیس جیپ اور چند اہلکار مسجد کی طرف آرہے ہیں۔ مولوی صاحب آگے بڑھے اور اہلکاروں کو سارا ماجرا سمجھا کر ساتھ چلنے کو کہا۔
ایک اہلکار نے کہا کہ انہیں اس طرح چوکی چھوڑنے کا آرڈر نہیں اس لیے وہ جیپ میں سوار ہوکر تھانے جائے گا اجازت اور نفری لائے گا البتہ دو سپاہی ساتھ روانہ کرسکتا ہے۔

مولوی صاحب نے یہ بھی غنیمت جانا اور پھر گاؤں کے لوگوں نے گھروں سے ٹکریٹر ٹرالیاں نکالیں اور تقریبا بیس سے پچیس کے لگ بھگ افراد ساتھ والے گاؤں چل پڑے۔ راستے میں اور بھی لوگ شامل ہوتے رہے کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2