ایک مقابلہ، تین ونر، تین لُوزر


آج کل ایک ایسا مقابلہ ہورہا ہے جس میں اگر جیت ہوئی، تو تمام فریقین جیتیں گے، ہارے تو سب ہی ہار جائیں گے۔ مقابلہ امن کی صدا کو بلند کرنے کا ہے، محاذ کابل کا ہے، جیت کا سہرا سر پہ سجانے کے لئے پاکستان، امریکہ اور افغان طالبان کوشاں ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ

یہ ہر لحاظ کامیاب دورہ تھا، یہ رائے نہ صرف بین الاقوامی میڈیا کی بلکہ پاکستانی عوام اور میڈیا کی بھی ہیں۔ سوائے عمران خان کے سخت سیاسی مخالفین کے، لیکن اسی دوران بلاول بھٹو صاحب نے تعریف بھی کی۔ وزیراعظم عمران خان کا جس طرح اوورسیز پاکستانیوں نے استقبال کیا، وہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے بھی عزت کی بات تھی۔ عمران خان کی تقریر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن، جو اعتماد اور صبر عمران خان نے دکھایا۔ ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے انہوں ہر بات ناپ تول کے کی اور مضبوط طریقے سے جواب دیا۔

عمران خان نے افغانستان کے مسئلے پر اپنے مذاکرات کے موقف کو مضبوطی سے دہرایا، ایران کو امریکہ جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے لیکن عمران خان صاحب نے کھل کر مخالفت کی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے کو گول کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل آفریدی سے جوڑ دیا۔ جس کا حل فی الحال امریکہ کے لئے بھی مشکل ہے کیونکہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان واپسی ابھی نہیں چاہتے۔ کشمیر مسئلے پر کھل کر بات کی۔

امریکی صدر کی مہمان نوازی

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ تیسرے درجے کا دورہ تھا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے بھرپور استقبال کیا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت عالمی میڈیا کی نظریں اس ملاقات پہ مرکوز تھیں۔ ماضی میں پاکستان کے خلاف سخت بیانات دینے والے صدر ٹرمپ نے پاکستان اور عمران کے بارے بھرپور تعریفی کلمات کہے اور عمران خان سے اپنی خوبرو اہلیہ کو ملوایا، وائٹ ہاؤس کا دورہ کرایا اور پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ جو شاید ستمبر کے بعد ممکن ہو، بشرطیکہ کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی ملے۔

افغان طالبان

دورہ امریکہ کی کامیابی کا سرٹیفکیٹ افغان طالبان کا مرہون منت ہے۔ اس وقت افغانستان میں تین بڑے افغان طالبان کے گروپس ہیں۔ ایک ملا عمر گروپ، دوسرا وہ گروپ جس پہ پاکستان کا اثر ورسوخ ہے اور تیسرا شدت پسندوں کا گروپ ہے۔ جو ابھی لڑائی لڑ رہا ہے۔

امریکہ پاکستان کی مدد کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟

امریکہ نے بیس سالوں میں جو مقصد افغانستان سے حاصل کرنا تھا کرلیا ہے۔ اب صرف 9 ہزار کے قریب فوجی افغانستان میں ہیں۔ جو نکالنا شاید زیادہ مشکل نہیں امریکہ کے لیے، لیکن وہ وِن وِن سیچوئیشن چاہتا ہے۔ تاکہ امریکی صدر نے اپنی الیکشن مہم میں جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرے۔ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی چاہتی ہے کہ افغانستان سے نکلا جائے۔ امریکہ صرف اس لئے پاکستان سے مدد چاہتا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کے بغیر نکل بھی جائے، تو افغان طالبان مستقبل میں پھر کھل کے سامنے آجائیں گے۔ امن قائم نہیں ہوگا۔

پاکستان افغان طالبان سے مذاکرات کامیاب کرائے، ان کو آئینی دھارے میں لے کے آئے۔ وہ اسمبلی کا حصہ رہیں۔ جیسے ساٹھ، ستر کی دہائی میں افغانستان کے حالات تھے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ پاکستان کی مرضی کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت کا حصہ بنیں، لیکن حکومت پہ چھتر چھایا امریکہ کی ہی رہے۔ اور یوں دنیا کو بتا سکے کہ یہاں امن ہم نے قائم کیا ہے اور پھر اس کو جواز بناتے ہوئے کل کو کہیں اور اعلان جنگ کرسکے۔

امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کا پاکستان کو فائدہ

افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکہ کے جانے سے پاکستان کو بھی برابر فائدہ ہے۔ کیونکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔ پاکستان کو اب احساس ہے کہ اب پراکسی وار نہیں مزید لڑی جاسکتی، بہتر یہی ہے امریکہ کو نکالے، کیونکہ اس سارے ماسٹر پلان سے بھارت نے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور بے گناہ پاکستانیوں کو مروایا ہے۔

اگر خاص طور پہ افغانستان میں حالات بہتر ہوتے ہیں تو پاکستان صیحح سمت میں لڑائی اور دفاع کی بجائے اکانومی کی بہتری پہ توجہ دے سکے گا۔

سب سے بڑا سوال

پاکستان میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ یہ ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے داماد کو کہہ کہ کروائی۔ لیکن، شاید حقیقت اس کے برعکس ہے گو کہ عمران خان صدر ٹرمپ سے ملنا چاہتے تھے، تاکہ کسی حد تک افواہوں اور غلط فہممیوں کو ختم کیا جاسکے۔ صدر ٹرمپ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں۔ اس لئے عمران خان ان کو اپنا موقف براہ راست پیش کرنا چاہتے تھے۔

اس سارے سلسلے میں مختلف سنئیر صحافیوں سے معلومات حاصل کیں۔ جب وائس آف امریکہ سے منسلک سینیر صحافی اسد حسن سے رابطہ کیا جو انتہائی شفیق انسان ہیں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کہ محمد بن سلمان کے حوالے سے یہ سب افواہیں ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے شروع سے تیاریاں ہو رہی تھیں جب امریکہ سینیٹر لنڈسے گراہم نے دورہ پاکستان کے دوران عمران خان صاحب سے ملاقات کی تھیں۔ یاد رہے انتیس جنوری 2019 کو ملاقات کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ سے کہیں گے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان سے خود ڈائریکٹ بات کرے۔

اسکا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ سمیت سنئیر قیادت بھی ساتھ تھی۔ جن کی امریکی فوج اور انٹیلجنس حکام سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اور مستقبل قریب میں افغان ایشو کے حوالے سے معاملات طے پائے گئے۔

صدر اشرف غنی اور حامد کرزئی گروپ

اشرف غنی جو حکومتی گروپ کو لیڈ کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں مذاکرات 28 ستمبر کو ہونے والے الیکشن کے بعد ہو، حامد کرزئی گروپ کی خواہش ہے کہ یہ عمل الیکشن سے پہلے ہو تاکہ افغان طالبان بھی عملی سیاست کا حصے بنیں اور ان کی سپورٹ حاصل کی جاسکے۔

مسئلہ کشمیر پہ صدر ٹرمپ کا بیان

وزیراعظم عمران خان کے مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنے پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود ان کو مسئلہ کشمیر حل کروانے کے حوالے سے کہا تھا، اس پہ بھارتی محکمہ خارجہ نے تردید کی، لیکن مودی نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ ہوسکتا ہے مودی نے کہا ہو کیونکہ ماضی میں ایک طرف پیلٹ گنز کا استعمال ہورہا تھا، مودی نے ایسی مکاری کی ہو۔ صدر ٹرمپ کا مسئلہ کشمیر پہ بات کرنا اس ملاقات میں بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ ان کا یہ بیان پوری دنیا کے میڈیا نے چلایا جس کا کشمیری رہنماؤں نے خیر مقدم بھی کیا۔

مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی

جیت گئے تو امریکہ کہے گا ہم نے امن قائم کردیا ہے، پاکستان کہے گا کہ ہم کہتے تھے کہ مذاکرات ہی واحد حل ہے اور افغان طالبان کہیں گے کہ افغانستان ہمارا ہے اس پہ صرف حکومت کا حق ہمارا ہے۔ مذاکر ات کا ناکامی کے بارے نہ سوچنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں سب ہار جائیں گے۔ افغان طالبان مزید لڑائی لڑیں گے۔ حالات مزید خراب ہوں گے اور دہشت گردی ختم نہیں ہوسکے گی۔ امریکہ جھوٹا سچا بیانیہ بھی ہار جائے گا اور پاکستان کو بھارت کے ساتھ افغانستان کی سرحد پہ بھی مزید کمزور معاشی حالات میں دفاع کے لیے پیسہ لگانا پڑے گا اور دنیا کے سامنے دہشت گردی کے حوالے سے لگا ہوا داغ بھی نہیں دھل سکے گا۔
بس دعا کریں کہ مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).