ٹیکسز خزانے میں اضافہ کردیں گے؟


حکومت کی آمدنی میں اضافے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے لیکن کیا ٹیکس ہی وہ واحد ذریعہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کے خزانے میں اضافہ کیا جاسکتا ہے؟ ، اس امر پر غور کرنے کے لئے کبھی کوئی کمیٹی بنائی جاتی ہے اور نہ ہی کبھی کوئی کمیشن بٹھایا جاتا۔

بظاہر دیکھا جائے تو ٹیکسوں میں اضافہ یا نئے ٹیکسوں کا لگایا جانا حکومت کی آمدنی اور ملکی خزانے میں واضح اضافہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اگر اس کا دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ طریقہ کار خزانے میں اضافے کی بجائے کمی کا سبب بنتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ جہاں یہ ٹیکسز ایک جانب عوام میں بے چینی کا اضافہ کرتے ہیں وہیں دوسری جانب ملک کی معیشت کو زوال پذیری کی جانب دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔

بہت سامنے کی بات ہے، جب بھی عوام پر پہلے سے لگے ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا یا نئے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے تو ہر فرد کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ قوت خرید کم ہونے کے نتیجے میں ہر فرد اپنی کسی نہ کسی کم ضروری مد میں کٹوتی کر کے ایسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کی زندگی کے لئے زیادہ ضروری ہو۔ مثلاً تن ڈھانپنے کے لئے نئے کپڑوں یا پہنے کے لئے پاؤں کے نئے جوتوں کو مؤخر کرکے وہ پیٹ کی دوزخ کو بھرنے جیسے کام کو اولیت دے گا۔

اسی طرح ہر حیثیت والا اپنے اپنے کم ضروری یا ایسے اخراجات جن کو بعد میں پورا کیا جاسکتا ہو، اس سے ہاتھ کھینچ لیگا تاکہ وہ اپنی آمدن کے مطابق گھر چلا سکے۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے اور پھر افراد کی آمد و خرچ کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ خرچ کی جانے والی رقم جس پر حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ ٹیکسوں میں اضافوں اور نئے نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد سے کہیں کم ہوگی۔ جب خرچ کی جانے والی رقم کم ہوگی یا اسی رقم کے برابر ہوگی جو اس سے قبل وصول ہوئی تھی تو پھر ملکی خزانے میں اضافہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟

یہ سوال اپنی جگہ غور طلب سہی، لیکن جس طرح دواؤں کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کی منفی اثرات بھی ہوتے ہیں اور کچھ دواؤں کے منفی اثرات تو فوائد سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اسی طرح ٹیکسوں میں اضافہ یا نئے نئے ٹیکس بھی ملک کی معیشت پر نہایت منفی اثرات ڈالنے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔

جیسا کہ شروع میں نشاندہی کی جاچکی ہے کہ ہر فرد بہر کیف اپنی محدود آمدنی میں ہی اپنی ضروریات کو پورا کرنے پر مجبور ہوتا ہے لہٰذا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے ان اخراجات کو کم کرے یا مؤخر کرے جن کو کم کیا جاسکتا ہو یا کچھ عرصے کے لئے ٹالا جاسکتا ہو توملک بھر کی مارکیٹ میں وہ بہت ساری اشیا جو کم ضروری ہوں یا جن کو بعد کے لئے اٹھائے رکھنا ممکن ہو، ان کی طلب کم ہو جائے گی جس کا اثر ان کی پیداوار پر پڑے گا اور ایسی مصنوعات جو نسبتاً کم ضروری ہوں تو لازماً ان کا مستقبل معدوم سے معدوم تر ہوتاجائے گا لہٰذا ایسی صنعتوں کے بند ہوجانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کارخانہ داروں کو آمدنی میں کمی کی وجہ سے ملازمین کی یا تو تنخواہوں میں کمی کرنا پڑے گی یا پھر ملامتوں میں کٹوتی عمل میں لانا پڑے گی۔ تنخواہوں میں کمی یا ملازمتوں میں کٹوتیاں کسی بھی صورت میں ملک کی معیشت کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہو سکتی۔

ٹیکسوں میں اضافے یا نئے نئے ٹیکسوں سے بظاہر یہ تو گمان ہوتا ہے کہ ملکی خزانے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ کارخانوں میں تیار ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب کارخانوں میں تیار کی جانے والی اشیا کی قیمتیں پڑھیں گی لیکن افراد کی قوت خرید وہیں کی وہیں رہے گے تو ان کی طلب میں لازماً کمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے ان کی سیل میں کمی ہو جائے گی جو ملوں اور کارخانوں پر منفی اثرات کا سبب بنے گی۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملوں اور کارخانوں میں تیار ہونے والی اشیا اگر زیادہ لاگت میں تیار ہوں گی تو بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ بہت مشکل ہو جائے گا اس لئے کہ ہمارے ملک کے مقابلے میں بہت سارے ممالک وہی اشیا زیادہ وافر اور کم قیمت میں فراہم کرنے کے لئے تیار ہوں گے اور یہ بات ہماری برآمدات کے لئے سم قاتل ثابت ہوگی۔ کارخانے بند ہونا شروع ہوجائیں گے یا وہ اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جس سے بے روزگاری بڑھ جائے گی اور ملک افرات و تفریط کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ملک کے خزانے کو کس طرح بھرا جائے یا وہ کیا اقدامات اٹھائے جائیں جس کی وجہ سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہو سکے۔

کسی بھی گھر کی آمدنی میں اضافہ دو ہی صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ گھر میں موجود وہ افراد جو برسر روزگار نہیں ہوں ان میں کچھ افراد کو روزگار میسر آجائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے سے برسر روزگار افراد کی آمدنی جس کو تنخواہ بھی کہا جاتا ہے اس میں اضافہ ہو جائے۔ ملازمتوں میں اضافہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں اور آمدنی یا تنخواہوں میں اضافہ بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب پہلے سے موجود ملوں اور کارخانوں کی پیداوار بڑھے اور اس میں تیار ہونے والی اشیا کی طلب میں ملک اور بیرون ملک اضافہ ہو۔

ان دونوں نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ کیا حکومت کم از کم ان دو زاویہ ہائے نگاہ کے مطابق کام کر رہی ہے۔ کیا ملک میں نئے نئے صنعتی زون قائم ہو رہے ہیں۔ کیا ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ کیا صنعتوں کے لئے ایسی منصوبہ بندی بنائی جارہی ہے جس کی وجہ سے ان کی اشیا کی پیداواری لاگت بڑھنے کی بجائے کم ہو اور وہ سستی ہونے کی وجہ سے ملک میں اور ملک سے باہر اپنی مارکیٹ بنانے اور بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں۔ کیا ملازمتوں کی مواقعوں میں اضافے کیے جارہے ہیں جس سے ایک جانب لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو اور دوسری جانب ملازموں کا اضافہ خریداری اور اشیا کی طلب میں اضافہ کر سکے۔

اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو پورے ملک میں ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ قرضے تو حاصل کیے جارہے ہیں لیکن ان قرضوں سے کوئی ایک بھی منصوبہ ایسا تیار نہیں کیا جارہا جو جاب اپرچونٹیز میں اضافہ کرتا نظر آرہا ہو۔ اس کے بر عکس بہت سارے ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جو لوگوں کو بے گھر کرنے اور ان کے کاروبار کی بتاہی و بربادی کا سبب ضرور بنے ہیں۔ ہستی بستی بستیاں اجاڑی گئی ہیں اور کئی کئی دہائیوں سے قائم بازار تجاوزات کا نام لے کر مسمار کردیئے گئے ہیں۔ اوپر سے ٹیکسوں کی مد میں ظالمانہ اقدامات، تیل، گیس اور بجلی کی ریٹ میں اضافے جیسے احکامات نے بہت سارے کارخانوں میں تالے لٹکوادیئے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں عوام بے روزگارہو کر رہ گئے ہیں۔

قرض لینا کوئی گناہ یا جرم نہیں لیکن قرض لے کر کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ اس سے آمدنی کا کوئی ذریعہ پیدا ہوسکے، گناہ عظیم بھی ہے اور بہت سنگین جرم بھی۔ اگر قرض صرف اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ہی لیاجائے اور اسے کسی تعمیری مصرف میں نہ لایا جائے تو پھر قرض کو اتارا کسیے جائے گا؟ اس پر لگنے والی سودی رقم کا کیا بنے گا اور نہ اتارنے کی صورت میں ملک کے کن کن اثاثوں کا سودا کرنا پڑے گا؟ ، یہ ہیں وہ سوالات جو ہر حکومت کو قرض لینے سے پہلے خوب اچھی طرح سوچ لینے چاہئیں۔

پاکستان ہر دور میں قرض لیتا رہا ہے لیکن یہ بات بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان قرضوں کو کافی حد تک مثبت مدآت میں بھی خرچ کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے برعکس موجودہ حکومت کا ایک سال گزرجانے کے باوجود گلوں شکوں کے علاوہ کسی بھی قسم کی کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ہر حکومتی دوروں کی تعریفوں میں تو زمین و آسمان ایک کیے جارہے ہیں لیکن مہنگائی، بجلی، گیس، پٹرول اور ٹیکسوں میں مسلسل اضافے پر اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے دورے کو تو (نعوذ باللہ) واقعہ معراج بنا کر رکھ دیا گیا ہے لیکن وہاں سے اب تک جو کچھ بھی حاصل ہوا ہے وہ عسکری قوت میں اضافے کے علاوہ اور کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

موجودہ حکومت کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صرف ”ہینڈسم“ ہونے سے یا ”باتوں“ سے کسی کا پیٹ کبھی نہیں بھرا کرتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ شکل و صورت اور باتوں کو کوڑا کرکٹ میں ڈال کر وہ باتیں اور کام شروع کیے جائیں جس سے عوام کی بھوک مٹ سکے ورنہ بعید نہیں کہ یہ بھوکے اور خالی پیٹ پوری موجودہ حکومت ہی کو ہڑپ کرجائیں اور ڈکار تک نہ لیں۔ اس سے پہلے کہ بھوک بغاوت کی اس انتہا کو پہنچے، حکومت باقی ماندہ سالوں میں اپنی اچھی منصوبہ سازی سے کام لے کر کوئی ایسا معجزہ دکھا جائے کہ عوام کا غصہ پیار و محبت میں بدل جائے ورنہ مستقبل تو کوئی اور ہی کہانی سناتا نظر ارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).