نئے پاکستان میں بات مکان اور روزگار سے سستی روٹی تک آن پہنچی


منگل کو کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے ملک میں روٹی اور نان کی قیمت کم کرکے اسے سابقہ شرح پر بحال کرنے کا حکم صادر کیا۔ آج خزانہ کے مشیر عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہؤا اور وزیر اعظم کے حکم پر عمل درآمد کے لئے تندور والوں کو فراہم ہونے والی گیس کی قیمت 30 جون کی شرح پر ’منجمد‘ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

ای سی سی کے اجلاس میں اس مقصد کے لئے سوئی ناردرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن پائپ لائن لمیٹڈ کو ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس طرح نیا پاکستان بنانے کی داعی حکمران تحریک انصاف نے انہی دیرینہ ہتھکنڈوں کو اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے جن سے کبھی عوام کا کوئی مسئلہ تو حل نہیں ہوتا لیکن پرسکون گھروں میں رہنے والے حکمرانوں کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ عوام کے لئے روٹی سستی کرکے ایک اہم مسئلہ حل کردیاگیا ہے۔ ایسے احکامات وہی حکمران جاری کرتے ہیں جن کا عمران خان کی طرح زمینی حقائق سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کی آنکھیں اور کان یا تو ان کے خوشامدی مصاحب ہوتے ہیں یا ملک کی وہ انٹیلی جنس ایجنسیاں جو وزیر اعظم کو معاملات اور حقائق کی وہی تصویر دکھانا ضروری سمجھتی ہیں جو وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں ضروری ہو۔ وزیر اعظم یا بااختیار حاکم جب روٹی کی قیمت کم کرنے جیسا کوئی حکم صادر کرتا ہے تو عبدالحفیظ شیخ جیسے مشیر بالکل ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں جیسا کہ ای سی سی نے آج کے اجلاس میں روٹیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا طریقہ وضع کرتے ہوئے کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو بتایا جائے گا کہ گیس فراہم کرنے والی دو بڑی کمپنیوں کو ایک ارب روپے کی سبسڈی دے کر یہ حکم دے دیا گیا کہ وہ تندور والوں  کے لئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرے تاکہ عوام کو دوبارہ سستی روٹی ملنے لگے۔ عمران خان اپنے حکم پر اس فوری اور مؤثر طریقے سے عملدرآمد کی خبر سن کر پھولے نہ سمائیں تو یہ ناروا حرکت نہیں ہوگی۔ تاہم اگر وہ ان طریقوں سے ملک کے عوام کو خوشحالی فراہم کرنے پر یقین کرنے لگے ہیں تو انہیں اپنے نیا پاکستان کے نعرے کے خاکستر ہوتے وجود کا مشاہدہ بھی کر لینا چاہئے۔ روٹی سستی کرنے کا حکم دینے سے کسی ملک میں خوشحالی اور انسانی وسائل کی ترقی کے کام کا آغاز نہیں ہوتا۔ آج کے معاشرے میں انسان کو روٹی کے علاوہ بھی بعض چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے بیمار بچوں کے علاج اور بوڑھے والدین کو سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے لئے تعلیم اور رہنے کے لئے گھر چاہئے ہوتا ہے۔

 پاکستان فلاحی مملکت نہیں ہے۔ سیاسی جلسوں اور گرما گرم ٹی وی ٹاک شوز کی گفتگو سے ہٹ کر غور کیا جائے تو 5500 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کی تگ و دو کرنے والا ایک ایسا معاشرہ جس کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کررہی ہو، اپنے لوگوں کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ عمران خان یا ان کی حکومت کو اس بات کا الزام نہیں دیاجاسکتا کہ وہ پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے یا عوام کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں لیکن ان سے یہ سوال ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی مقصد کے لئے بدستور گمراہ کن نعرے لگاتے ہوئے کیوں عوام کو اصل اقتصادی حالت سے آگاہ کرنے اور اپنی مدد آپ کے تحت اپنی زندگی سنوارنے کا مشورہ نہیں دیتے۔ اور کیوں اس کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا؟ وہ کیوں پرفریب نعروں ، احتساب کی باتوں اور سابقہ حکومتوں کی غلط کاریوں کو مسائل کا سبب قرار دے کر یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب سابقہ حکمرانوں کا ٹینٹوا دبا کراربوں روپے وصول کرلئے جائیں گے تو عوام کے سب مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟

حکومت جب یہ حوصلہ کرے گی کہ وہ خود بھی مسائل کو سمجھنے کے لئے محنت کرے اور عوام کو بھی ان کی درست تفہیم پر آمادہ کرے۔ جب حکومت یہ جان جائے گی کہ ملک میں وسائل کی کمیابی کا سبب بدعنوانی اور سابقہ حکمرانوں کی بدنیتی سے زیادہ آبادی میں بے شمار اضافہ اور قومی پیداواری وسائل میں مسلسل کمی ہے۔ ملک کو اس وقت پانی کی قلت اور ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سےزرعی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے اور عام لوگوں تک صحت مند غذا پہنچانے کا اہتمام بھی نہیں ہو پاتا۔  پانی کی قلت کا ایک سبب یہ ہے کہ پانی کے نئے وسائل دریافت نہیں کئے جاتے اور دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ وجودہ وسائل اور تقسیم کے نظام میں نقائص دور کرنے کے لئے کام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ماحولیات کے چیلنجز کو ٹھنڈے کانفرنس ہالوں میں لمبی چوڑی تقریریں کرنے سے حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے گلی ، محلے اور دیہات کی سطح پر لوگوں میں آگہی پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

روٹی کی قیمت کم کرنے سے نہ ملک کے غریب مطمئن ہوں گے اور نہ پہلے سے زیادہ لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے۔ البتہ ای سی سی کے اجلاس میں کئے گئے فیصلے کے مطابق تندور والوں اور غریبوں کو روٹی و نان فروخت کرنے والے ٹھیلوں کے لئے گیس کی قیمت کو پرانی شرح پر برقرار رکھنے کے لئے اب جائزہ کمیٹیاں کام شروع کردیں گی۔ یہ ملک کے طول و عرض میں جا کر ا س بات کا جائزہ لیں گی کہ کون سا تندور ’غریبوں‘ کو روٹی فروخت کرتا ہے اور کہاں سے امیر کبیر اور مالدار لوگ روٹی نان خریدتے ہیں۔ عوام کی حالت بدلنے کے دعویدار وزیر اعظم اور ان کے عالمی شہرت یافتہ مشیر مالیا ت کو ہرگز یہ احساس نہیں ہوگا کہ بازار سے روٹی خرید کر کھانے کی ’عیاشی ‘ کوئی ایسا خاندان نہیں کرسکتا جو بجٹ اور معاشی تشریحات کے مطابق غریب کی تعریف میں شامل ہوتا ہے۔ ایسے کسی گھر کو دن کا آٹا خریدنے کے روپے بھی مل جائیں تو اللہ کا شکر کرکے اس دن گھر روٹی پکا کر بچوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عبدالحفیظ شیخ ہی تین برس پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ اسی لئے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے معاون چئیر مین آصف علی زرداری نے حال ہی میں کہا تھا کہ اگر یہ جاننا ہے کہ ملک کو ملنے والے غیرملکی قرض کیا ہوئے تو حفیظ شیخ کو جیل میں ڈال کر پوچھ لیا جائے۔ سابق صدر کا یہ مشورہ دراصل موجودہ حکومت کی کوتاہ بینی پر طنز کے علاوہ ٹھوس تبصرہ بھی ہے۔ جب بھی حکومت مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لئے مناسب حل تلاش کرنے کی بجائے نشانے کے بغیر ہوا میں تیر چلانے کی کوشش کرے گی تو وہ اپنی غلطیوں اور فیصلوں کا خود ہی شکار ہونے لگتی ہے۔

 وزیر اعظم کو روٹی کی قیمت پر کنٹرول کرنے کا حکم دینے کی ضرورت بھی اسی لئے محسوس ہوئی ہے کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ مالی مشکلات کا شکار عوام حکومت کی مالی حکمت عملی کا براہ راست نشانہ بن رہے ہیں اور ان اقدامات سے پیدا ہونے والی صورت حال میں ان کی مقبولیت اور حکومت کی شہرت نشانے پر ہے۔ حکومت نے ناقص معاشی پالیسیوں اور عاقبت نااندیشانہ سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا کرلئے ہیں کہ تحریک انصاف کے حامی بھی انگلیاں دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں۔

روٹی سستی کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ روٹی اور دیگر ضرورتیں حاصل کرنے کے لئے عام لوگوں کی صلاحیت میں اضافہ کرنا یعنی روزگار کے مواقع پیدا کرنا ، سب سے بڑا چیلنج ہے۔ روٹی سستی کرنے کے حکم اور تندوروں کو پرانی قیمت پر گیس فراہم کرنے کے منصوبہ کا ایک ہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حکومت روزگار کی فراہمی اور معیشت کی بحالی کے اصل مقصد میں ناکام ہورہی ہے۔ اب وزیر اعظم خود ہی اس ناکامی کو تسلیم بھی کررہے ہیں۔

ملک کے تاجروں نے اگست کے آخر میں چار روز کی ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیا سرمایہ اور روزگار تو دور کی بات ہے، پہلے سے چلنے والے کاروبار اور روزگار فراہم کرنے والے ادارے بھی دروازے بند کررہے ہیں۔ کسی بھی معیشت کے لئے یہ بھیانک خبر ہے۔ روٹی سستی کرنے سے اس طوفان کا منہ پھیرنا ممکن نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali