کشمیر میں ناامیدی سی ناامیدی ہے


\"nylaکشمیر کے تنازع میں قومیت اور مذہبیت کا بڑا ہاتھ ہے جس میں‌ ہر فریق اپنے دکھوں، بے انصافی اور تشدد کے لئے دوسرے فریق کو الزام دیتا ہے۔ جموں‌ و کشمیر اور انڈین یونین کے مابین غیر اعتمادی، شک و شبہ اور پاگل پن نے اس شعلے کو ہوا دی ہے۔ 1990 سے ریاست میں‌ جاری گوریلا جنگ کئی مراحل سے گذری ہے لیکن سیاسی اور فوجی جبر ریاست میں ایک تلخ سچائی کے طور پر قائم رہے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست کی پالیسی حق خودمختاری، جمہوری اداروں‌ کی تعمیر اور عوام کی خواہشات کے خلاف رہی ہے جس نے کشمیر کے عوام کو انڈین یونین سے دور کیا ہے۔

کشمیر کے جمہوری اداروں‌ کی شعوری تباہی اور اختلاف رائے کے جائز سیاسی حق کو غیر قانونی بنا دئیے جانے سے شدت پسند عناصر کو ابھرنے کا موقع ملا ہے۔ کچھ جمہوری تنظیموں‌ کے ظالم اور دھوکے باز ہونے کا پردہ فاش ہونے سے دیگر جمہوری نظاموں‌ اور اداروں‌ کے خلاف جذبات ابھرے ہیں۔

ہمارا امن اور ہماری ریاست کی خوشحالی ہندوستان اور پاکستان کے لاکھوں‌ افراد کے امن اور خوشحالی سے پیوستہ ہیں۔ بارڈر ہونے کے باوجود ہم ایک ہی علاقے سے وابستہ ہیں۔ ہماری امیدیں، ہمارے خوف و خطرات ایک ہیں۔

ہم مسئلہ کشمیر کا اس کے عوام کی مرضی کے مطابق ایک پائیدار اور پرامن حل چاہتے ہیں۔ اسی میں‌ تمام فریقین کی ترقی، عزت اور امن کا راز پوشیدہ ہے۔

بلوچستان پرائم منسٹر نریندرا مودی کی دلچسپی اور حمایت کشمیر میں‌ زندگیاں بچانے اور قانون کی بالادستی کو قائم رکھنے میں مدد نہیں دے گی۔ کشمیر میں‌ بلا مقصد جبر جاری نہیں‌ رہ سکتا۔

کشمیر کے حالیہ احتجاجی مظاہرے کے رہنما وہ نوجوان ہیں‌ جن کی نسل صرف تنازع، سیاسی بحران اور سیاسی اور سماجی عدم استحکام سے آشنا ہے۔ اس نسل میں‌ شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ گورنمنٹ کی طرف سے کشمیر کے شہریوں‌ کے آئینی اور قانونی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اس سیاسی مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں‌ کیا گیا ہے۔

فیڈرل حکومت کی لاپرواہی مجرمانہ ہے۔ کشمیر میں‌ عسکریت اور سماجی تانے بانے کے بکھیرنے میں‌ انڈیا کی حکومت کے لئے لازمی ہے کہ وہ تقسیم کی سیاست پر تکثیریت کو فوقیت دے اور عوام کو پرائم منسٹر نریندر مودی کی ہندوتا کی بیان کردہ یک سنگی قومیت کے ساتھ دیوار سے نہ لگائے۔

لائن آف کنٹرول کے دونوں‌ جانب موجود طاقتیں کمشیر میں‌ ابھرتے اور بدلتے ہوئے سیاسی بحران کو مزید نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں‌ ہوسکتیں۔ ان دونوں‌ فیڈرل حکومتوں‌ کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ ریاست جموں و کشمیر میں‌ آزاد اور خودمختار حکومت قائم کرنا قانون کی بالادستی اور سیاسی حق خودارادیت کی جانب ایک مثبت قدم ہوگا۔

جمہوری عمل میں‌ رکاوٹ ‌ڈالنے اور عوام کے جائز سیاسی حقوق تلف کرنے کے بجائے جموں‌و کشمیر کے عوام کو طاقت ور بنانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے کشمیر کے حق میں دانشمندانہ فیصلے کرسکیں۔ کمزور اور ناآسودہ افراد تباہ کار نظریات کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ تعلیم یافتہ اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد حکومتی یا نجی اداروں‌ میں‌ ایک پرامن، تکثیری جمہوریت کی راہ استوار کرسکتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر علاقے میں‌ پائیدار امن کے لئے مزاکرات میں‌ حصہ لے کر ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

کشمیر کے بچوں سے میری محبت انڈیا اور پاکستان کی سیاست سے مایوسی سے کہیں‌ زیادہ ہے۔ مجھے ان افراد سے قطعاً ہمدردی نہیں‌ جو اپنی مذہبی اور سیاسی دکانیں‌ چمکانے کے لئے جلتے ہوئے کشمیر کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ہم یا ہمارے بچے ان عناصر کے ایجنڈے بڑھانے کے لئے پیدا نہیں‌ ہوئے جن کو اپنی جنگ خود لڑنی چاہئے اور جس کے لئے ان کو دونوں‌ جانب کی حکومتوں‌ سے پیسہ بھی مل رہا ہے۔

میں کافی سارے لوگوں‌ کو تماشہ کرتے دیکھتی ہوں، ان میں سے کسی میں‌ اتنی جرات نہیں‌ کہ ہمارے نوجوانوں‌ کو توپ کا بارود بنانے کی سیاست کی مخالفت کریں۔ ہماری حالیہ سیاسی لیڈرشپ اپنی ہی تصویر کا شکار بن چکی ہے۔

جموں و کشمیر میں‌ ہر سیاست دان جلدی سے انڈیا اور پاکستان کو ریاست کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا دیتا ہے۔ ان کی اپنی بھی کوئی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم برصغیر کی سیاسی شطرنج میں‌ مہرے بن کر رہ گئے ہیں؟ ایک بھی لیڈر ایسا نہیں‌ جس میں‌ اتنی جرات ہو کہ گلیوں میں‌ ابلنے والے غم و غصے کو ریاست کے حق میں‌ تعمیری رخ دے سکے۔

قومی ریاستوں کے سامنے اپنے مفادات ہیں، ہمارا مشترکہ مقصد کشمیریوں‌ کی حفاظت ہونا چاہئے، خاص کر وہ نوجوان جن کی زندگیاں‌ ابھی شروع تک نہیں ہوئیں۔

چلئے اس سے پہلے کہ ہم انڈیا یا پاکستان کے فلمی ستاروں، سیاست دانوں‌ اور لکھاریوں‌ کی طرف ہمدردی کے لئے دیکھیں، پہلے ایک دوسرے سے ہمدردی کرنا سیکھیں۔ چلئے خود کو ان لوگوں‌ کی جگہ رکھ کر سوچیں جنہوں ‌نے ناقابل تلافی نقصان برداشت کیا ہے اور وہ ان صدمات سے کبھی رہا نہیں‌ ہو پائیں‌گے۔ وقت ان افراد کے زخموں‌ کو نہیں‌ بھر پائے گا۔ ہمیں‌ کشمیر کے تنازع کے حل کے لئے مقامی حلقوں کی ضرورت ہے۔

دقیق سیاسی تجزئیے ایک طرف لیکن میرا اپنی کشمیری قوم پر سے اعتبار کبھی نہیں‌ اٹھے گا۔ اپنی ہر سانس کے ساتھ میری یہی دعا ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے غصے، غم اور احساس تنہائی کو کسی کے ہاتھوں‌ میں‌ کھیلے بغیر سیاسی میدان میں‌ استعمال کریں۔ انڈیا اور پاکستان دونوں‌ ممالک نے ہماری ریاست کو سیاست میں‌ شرکت کے جائز حق سے محروم کیا ہے، ہم ایسا نہیں‌ ہونے دے سکتے۔

سیاست میں‌ ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آگے کا، بار بار پیچھے مڑ کر دیکھنے کا نہیں۔ نہ صرف مین اسٹریم کے سیاست دانوں‌ کو بلکہ علیحدگی پسندوں کو بھی آج کی ضروریات کے مطابق سیاست اور طریقوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

ہماری نئی نسل کے لئے میرا دل کی گہرائیوں‌ سے یہ پیغام ہے کہ زندہ رہئے، سلامات رہئے، اور اپنی قوم کو زندہ رکھئے، اور ہمارے حق کی حفاظت کیجئے!

ترجمہ: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments