نازلی کی انقلابی موبائل سم اور بابر کی جمہوری غیرت (2)


نازلی کی انقلابی موبائل سم اور بابر کی جمہوری غیرت (1)

\"waqar انتخابات میں سلامت پارٹی جیت گئی۔ منور شرجیل بھی خان خدا بخش سے ہار گیا۔ مصائب نے جیسے نازلی کا گھر دیکھ لیا۔ وہ محبت کے تخت سلیمان سے گری تو انقلابی پارٹی کے ذریعے لیل و نہار بدلنے کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے، پھر چند روز بعد اس کا باپ خاموشی سے مٹی اوڑھ گیا۔ ماں بیٹی قریہ بے اماں میں بے یار ومددگار رہ گئیں۔ تلخ حقائق کی تمازت نے خوابوں کا گلستان خاکستر کر دیا۔ سوگ اور جذبات کے گرداب سے نکلی تو نازلی کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا۔ محبت کی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگنے لگیں۔ مہجور صبحیں اور فرقت زدہ شامیں اسے کاٹنے لگیں۔ ایک روز وہ اپنے گھر سے نکلنے لگی تو گلی میں دور اسے بابر جاتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے دل میں ہوک سی اٹھی، دل کا شٹر اس نے جس زور سے گرایا تھا، وہ اتنی ہی قوت سے اٹھ گیا، مگر اس میں داخل ہونے والا کوئی اور چوکھٹ پار کر چکا تھا۔ بابر کی ماں نے منگنی ٹوٹنے کے بعد اس کی شادی اپنی بہن کی بیٹی زاہدہ سے کر دی تھی۔ نازلی کی ماں نے بھی اس کے رشتے کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی مگر ایک تو کفیل کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد چھائی غربت اور اوپر سے وہ بابر کی محبت میں اتنی بدنام ہوئی تھی کہ ہر طرف سے جواب ہو گیا۔ ماں نے ہمت نہ ہاری اور آخر کامیاب ہو گئی۔

تارکول کی رنگت والا ادھیڑ عمر شمشیر ایک سرکاری ڈسپنسری میں نائب قاصد تھا، جس کی بیوی دو بچے چھوڑ کر دنیا کے دکھوں سے آزاد ہو گئی تھی۔ نازلی آخر شب کے ہارے ہوئے جواری کی طرح ڈولی میں بیٹھی اور شمشیر کے ڈربہ نما گھر میں آ گئی۔ شمشیر، اس کی ماں اور بچوں کی خدمت کرتے اور طعنے، جھڑکیاں اور جوتے سہتے آٹھ سال کا عرصہ بیت گیا، اس دوران وہ خود بھی تین بچوں کی ماں بن گئی۔ کار زارِ حیات میں وہ گھمسان کا رن پڑا کہ اس کا شعلہ آفریں حسن قصہِ پارینہ ہو گیا۔ حور شمائل نازلی کے چہرے کی شادابی تنگ دستی، ناکافی خوراک اور دل کی ویرانیوں نے مل کر چاٹ لی۔ ادھر بابر کو بھی ترک محبت مہنگی پڑی تھی۔ نیم خواندہ زاہدہ ایک لڑاکا، فضول خرچ اور بد دماغ عورت تھی، جس نے خاموش طبع بابر کی زندگی جہنم بنا دی۔ وہ اسے اٹھتے بیٹھتے نازلی کے طعنے دیتی۔ دو دفعہ اس نے اپنے بھائیوں کو بلوا کر ان سے بابر کو پٹوایا بھی تھا۔ گھر کے خراب حالات کا اثر کاروبار پر بھی پڑا اور بابر مقروض ہو گیا۔ نازلی کیا روٹھی کہ اس کا مقدر بھی روٹھ گیا۔ آخر اس نے مجبور ہو کر اپنی کریانے کی چھوٹی سی دکان بیچ کر شربت کی ریڑھی لگا لی اور اس سے زندگی کی ریڑھی کھینچے لگا۔ وہ وقت سے بہت پہلے ہی بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔

سلامت پارٹی کی حکومت بمشکل دو سال ہی چل سکی تھی۔ امن وامان کی تباہ کن صورت حال نے ملکی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دی۔ پھر فوج کے سربراہ نے اس کے خلاف کرپشن اور نااہلی کی چارج شیٹ تیار کر کے اسے چلتا کیا اور خود اقتدار سنبھال لیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے قوم سے حالات ٹھیک ہوتے ہی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ پھر کئی ساون، بھادوں اور چیت، بیساکھ بیت گئے مگر حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ پانچ سال بعد اس صاحب اقتدار نے اصلاح احوال کا کارگر نسخہ آزمایا اور ملک کے کونے کونے سے’’دیانتدار اور باکردار‘‘سیاستدان چن کر سرکاری پارٹی تشکیل دی اور انتخابات کا اعلان کر دیا۔ خان خدا بخش اور ملک منور شرجیل دونوں اس پارٹی میں شامل ہو گئے اور اسی شہر سے بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن کر میدان میں اتر آئے۔ وہ ضمیر کی قربانی دے کر ملک بچانے نکلے تھے۔ نازلی کے سیاسی نظریات حالات کی بھٹی میں جل کر بھسم ہو چکے تھے، لیکن جب اسے یہ خبر ملی تو وہ دم بخود رہ گئی۔ جن لیڈروں نے سیاسی اختلافات کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر اس کی زندگی تباہ کی تھی، آج وہ ایک ہی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ دو موٹے موٹے آنسو بے کس کی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے گریبان میں ضم ہو گئے۔

نازلی کا چھوٹا بچہ پوری رات بخار میں جلتا رہا تھا۔ صبح وہ اسے گود میں اٹھا کر شمشیر کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر نے اپنے نائب قاصد کے بچے کا ہمدردی سے معائنہ کیا اور دواؤں کے ساتھ کچھ ہدایات بھی دیں۔ شمشیر کی نوکری کا وقت تھا، وہ اکیلی باہر نکل کر بڑی سڑک تک آئی اور رکشے والوں سے بات کی مگر کوئی بھی سو روپے سے کم پر تیار نہ ہو رہا تھا۔ مہینے کی آخری تاریخیں تھیں اور وہ سو روپے کی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی جبکہ شمشیر اسے مہینے بھر کا لگا بندھا خرچہ دے چکا تھا۔ وہ بچے کو سینے سے لگائے پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑی۔ انتخابات کی گہما گہمی عروج پر تھی۔ وہ فٹبال گراؤنڈ کے قریب پہنچی تو گولوں کی گھن گرج اور ڈھولوں کی تھاپ پر سرکاری پارٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ سٹیج پر ملک منور شرجیل اور خان خدا بخش ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بلند کیے ہوئے تھے۔ نازلی جسے مرگِ تمنا تو یاد تھی مگر فرصتِ ماتم نہ تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا دل بے اختیار ماتم کرنے کو چاہا۔ وہ غیر ارادی طور پر نسبتاً کم رش والی جگہ پر فٹ پاتھ سے اتر کر دو قدم اندر گراؤنڈ میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ ملک منور شرجیل تقریر کر رہا تھا ’’میرے بڑے بھائی خان خدا بخش اور میں ایک تھے، ایک ہیں اور ایک رہیں گے‘‘ خدا بخش نے جذباتی انداز میں کھڑے ہوکر تالی بجائی تو حاضرین نے پرجوش نعروں کی گونج میں اس کی تقلید کی۔ یہ منظر اور الفاظ نیزے کی زہر میں بجھی اَنی کی طرح نازلی کے دل میں کھب گئے۔ مزید کچھ دیکھنے، سننے کی اس میں تاب نہ تھی۔

وہ واپس پلٹی تو پل صراط کی ساعت اس کی منتظر تھی۔ بابر فٹ پاتھ پر اپنی شربت کی ریڑھی کے پاس کھڑا، ویران آنکھوں سے جلسے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ جگر فگار جوڑے کی آنکھیں چار ہوئیں تو ایک برق بلا کوند گئی۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے۔ ساکت کھڑے بابر اور نازلی کی آنکھوں نے چند لمحوں میں ایک دوسرے سے ہزاروں شکوے کر ڈالے۔ نازلی میں کھڑا رہنے کی ہمت نہ رہی، وہ فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گئی اور اپنے بوسیدہ دوپٹے سے پسینہ پونچھنے کے بہانے آنسو صاف کرنے لگی۔ بابر نے شربت کا گلاس بھر کر اس کے قریب رکھا اور خود بھی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔

وہ برسوں بعد اس سے مخاطب ہوا تھا ’’بہنے دے، مت روک آنسوؤں کو نازو، انہیں بہنے کے لیے اس سے بہتر منظر کب میسر ہوگا؟ ‘‘ نازلی نے سر اٹھا کر دیکھا، بابر کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ اس نے بچے کو اپنی چادر بچھا کر فٹ پاتھ پر لٹا دیا، پھر دونوں ہاتھوں سے بابر کے داہنے گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر اپنا سر رکھ دیا۔ اسے جگ سے ذرا بھی لاج نہ آئی۔ وہ یوں دھاڑیں مار کر روئی کہ آسمان دہل گیا، زمین کے کانوں پر مگر جوں تک نہ رینگی۔ ڈھولوں کی تھاپ پر جلسہ جاری رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments