جمہوریت پسند دوستوں سے چند گزارشات


نہایت احترام سے عرض کرنے دیں کہ مجھے محترم ناصر اقبال خان کی تحریر پر کچھ نیک نیت لیکن جذباتی احباب کے تبصروں سے سخت اختلاف ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں ملکی سیاست میں غیر ذمہ دارانہ لب و لہجے اور ذاتیات کی حد تک اترنے والی دشمنی نما مخالفت کا جو چلن شروع ہوا ہے اس نے صرف ایک گروہ ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ قوم کا اجتماعی مزاج اب اپنے سیاسی مخالفین کے لئے “چول” (استغفراللہ) اور “لفافہ” (لاحول ولا) وغیرہ جیسے نہایت نازیبا اور ناقابل قبول الفاظ استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ نہایت ادب سے عرض ہے کہ جمہوریت کا دفاع کرنے والوں کی طرف سے ایسا رویہ جمہوریت کے مخالفوں کی کامیابی ہے۔ اگر جمہوریت کا دفاع کرنے والے اختلافی رائے کو تحمل سے سن کر دلیل سے جواب دینا بھول جائیں گے تو جمہوریت کے دشمن خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔

اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حریف نے ایک ایسی عمارت تعمیر کی ہے جو تعمیرات کے اصولوں سے انحراف ہے۔ جو پائیدار نہیں ہے۔ برسات میں پانی کے نکاس کا بندوبست نہیں کیا، گرمی میں ہوا کی آمد و رفت کا خیال نہیں رکھا۔ اس عمارت کو زلزلے کے معمولی جھٹکے کی سہار نہیں، اس عمارت میں معمولی انسانی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا تو عزیزان من، آپ ایک بہتر نقشہ تیار کیجئے اور ایک ایسی عمارت کی بنیاد رکھیے جس میں یہ نقائص نہ ہوں۔ حریف کے عمارت کے باہر کھڑے ہو کر اسے گالیاں دینے سے کیا فائدہ؟ نقائص سے بھری اس عمارت کو آگ لگا دی تو ناپسندیدہ عمارتوں کو آگ لگانے کا اصول قائم ہو جائے گا۔ پھر ہماری عمارت کو آگ لگانے کا جواز بھی پیدا ہو جائے گا۔ اس سے اس گروہ کو فائدہ ہو گا جو آگ بجھانے کے نام پر پوری بستی پر قبضہ کرتا آیا ہے۔ اپنے حریف کی سوچ کو گالی دینا آسان ہے لیکن بے فائدہ ہے۔ دلیل سے جواب دینا، اعداد و شمار کی مدد سے مخالف نقطہ نظر کی خامیاں واضح کرنا ذرا مشکل کام ہے اور کبھی کبھی اس سے الجھن یا تھکاوٹ بھی ہوتی ہے لیکن، معذرت کے ساتھ عرض ہے، یہی کرنے کا کام ہے۔

اپنے محدود تجربے اور مشاہدے کی بنا پر ایک دو باتیں آپ سے عرض کرنا ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی سیاسی صورت حال میں اصولی اختلاف سے بڑھ کر ذاتی تلخی پیدا کرنے سے سیاسی ارتقا کو نقصان پہنچتا ہے۔ زبان کا لفظ اور قلم کا نشتر واپس نہیں ہوتے۔ دیکھیں، 1971 کے بعد حالات بہت خراب تھے۔ بھٹو صاحب کو شملہ مذاکرات کے لئے بھارت جانا تھا۔ ایک شکست خوردہ ملک کا رہنما فاتح ملک میں مذاکرات کے لئے جاتا ہے تو اس کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے۔ اس موقع پر حزب اختلاف نے بالغ نظری کا ثبوت دیا۔ اپوزیشن رہنما ہوائی اڈے پر بھٹو صاحب کو رخصت کرنے گئے۔ بھارت کو پیغام مل گیا کہ داخلی سیاست جو بھی ہو، بھٹو صاحب پاکستانی قوم کے رہنما کے طور پر مذاکرات کرنے آ رہے ہیں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ نوے ہزار جنگی قیدی رہا ہوئے، چھ ہزار مربع میل کا علاقہ واگزار ہوا۔ پاکستان کو مشرقی پاکستان جیسے ناقابل تصور المیے سے آگے نکل کر باقی ماندہ پاکستان کی تعمیر کا موقع ملا۔ (یہ الگ بات کہ ہم نے اس موقع سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا۔)

پاکستان کا دستور مرتب کرتے ہوئے بھی یہی صورت پیش آئی۔ حکومت اور حزب اختلاف نے مل کر ایسا دستور مرتب کیا جو قوم میں موجود اختلافی آرا میں سمجھوتے کی عکاسی کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 45 برس میں بار بار کی کوشش کے باوجود جمہوریت دشمن اس دستور کو ملیامیٹ نہیں کر سکے اور آئندہ بھی نہیں کر سکیں گے۔ یہ دستور پاکستان کی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

یہ تو رہے افہام و تفہیم کے فوائد۔ اب دوسرا رخ دیکھئے۔ بھٹو صاحب ان کے پرجوش ساتھیوں اور دوسری طرف حزب اختلاف کے جذباتی رہنماؤں نے جہاں جہاں زور آوری کی کوشش کی، ایسی تلخی پیدا ہوئی جس نے آنے والے برسوں میں پوری قوم کا راستہ کھوٹا کیا۔ اب خود ہی سوچیے کہ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد سے شرمناک بدسلوکی نے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں دیرینہ دشمنی پیدا کر دی۔ اس سے کیا حاصل ہوا؟ حیدر آباد ٹریبیونل نے پختون خوا اور بلوچستان کے مقبول رہنماؤں کو برگشتہ کیا۔ اس سے کسے فائدہ ہوا؟ اسے فائدہ ملا جو گیارہ برس قوم کی گردن پر سوار رہا۔ بھٹو صاحب کو دلائی کیمپ بنانے سے کیا حاصل ہوا؟ حزب اختلاف کو ملک توڑنے کا الزام بھٹو پر رکھنے سے کیا ملا؟ بھٹو صاحب کو لاڑکانہ سے مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بلامقابلہ منتخب ہونے کے شوق میں اپنا سیاسی وزن کھو دیا۔

ایک نکتے پر آپ کی مہربان توجہ چاہتا ہوں۔ سیاسی قوتوں میں اختلاف جب دشمنی کو پہہنچ جائے تو پھر سبوتاژ کرنے والوں کو اپنا کام دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ بھس میں چنگاری ڈال کر اپنا کام نکالنے والے نقاب پوشوں کو واردات کے لئے راستہ مل جاتا ہے۔ 23 مارچ 1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں فائرنگ کرنے والوں کا کبھی سراغ نہیں ملا۔ مئی 1990 میں پکا قلعہ حیدر آباد پر فائرنگ سے لسانی فسادات کی آگ بھڑکانے والے کبھی پکڑے نہیں جا سکے۔ 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں فائرنگ کا مقدمہ کبھی اپنے انجام کو نہیں پہنچے گا۔ آپ نے دیکھا کہ 12 مئی 2007 کو کراچی میں قتل و غارت کرنے والوں کا کوئی نشان نہیں ملا۔ کسی نے مڑ کے نہیں پوچھا کہ تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں چوہدری نثار علی خان کے گھر کے باہر مرنے والے سات افراد کن ماؤں کے بیٹے تھے؟

عزیزان من، جمہوریت چاہنے والے اپنے ملک کی بھلائی چاہتے ہیں۔ یہ کسی کو زچ کرنے یا نیچا دکھانے کا معاملہ نہیں۔ سیاسی اختلاف میں ہمیشہ سوچیے کہ اصل قضیہ عوام کی فلاح ہے، ملک کی معاشی ترقی ہے اور سیاسی استحکام ہے۔ آج جس سے اختلاف ہے، کل حالات اس سے ہاتھ ملانے کی ضرورت پیدا کر سکتے ہیں۔ محترم اصغر خان بھٹو صاحب کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کی دھمکی دیا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے بعد ایسے حالات ہوئے کہ اصغر خان کو بھٹو کی بیوہ کے ساتھ مل کر سیاست کرنا پڑی۔ جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد، جمیعت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی جیسے رہنماؤں پر طالبان نے دہشت گرد حملے کئے۔ یہ سب رہنما مذہبی سیاست کے علمبردار ہیں۔ کیا ان حملوں کے ردعمل میں سیکولر حلقے یہ سوچ کر ایک طرف ہو جاتے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں پر مذہب کی ایک مختلف تشریح کرنے والے حملے کر رہے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ سیاست اتنی ہی پیچیدہ چیز ہے جتنی کہ زندگی خود۔ قطعیت اور انتہا پسند نقطہ نظر سے گریز کرنا چاہیے۔

ایک آخری بات یہ کہ آج آپ کی حمایت میں جو فرد یا گروہ نامناسب سیاسی رویہ اختیار کرے گا، اسے کل آپ کے خلاف بھی ایسی ہی زبان اور ایسا ہی لب و لہجہ استعمال کرنے میں عار نہیں ہو گا۔ اگر آج آپ ایسے رویے سے خوش ہوتے ہیں تو آنے والے کل میں آپ کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔ راولپنڈی کے سیاسی رہنما شیخ رشید سیاسی جلسوں میں میاں نواز شریف کی موجودگی میں پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے بارے میں بدزبانی کیا کرتے تھے، آج وہ ایسی ہی زبان میاں ںواز شریف کے خلاف برت رہے ہیں۔ سیاست میں آپ کا حقیقی ساتھی اور جمہوریت کا اصل خیرخواہ وہی ہے جو سیاست کی گرما گرمی میں بھی اصولی موقف اختیار کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہمیں غیرمعمولی حالات کا سامنا ہے تو دراصل نظریہ ضرورت کو راستہ دینے کے مترادف ہے۔ نظریہ ضرورت بے اصولی اور موقع پرستی کا فلسفہ ہے۔ اس نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا اور عوام کو بے دست و پا کیا ہے۔

مجھے محترم ناصر اقبال خان کی تحریر کے ہر جملے سے اختلاف ہے لیکن “ہم سب” کا مدیر ہوتے ہوئے میری اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ میں ان کے نقطہ نظر کو، اپنی ذاتی رائے سے قطع نظر، اسی احترام کے ساتھ شائع کروں جس خوشی کے ساتھ میں ہر رات اپنے برادر محترم سید مجاہد علی کے اداریے کا انتظار کرتا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ذاتی طور پر محترم ناصر اقبال خان سے معذرت کروں کہ ان کی تحریر پر بہت سے تبصروں کا انداز نامناسب تھا۔ میں ناصر اقبال خان کی دل آزاری پر شرمسار ہوا ہوں۔ کچھ دوستوں نے صحیح طریقے سے دلیل کے ساتھ اختلاف کیا، وہی درست راستہ ہے۔ دلیل کا راستہ ہی جمہوریت کا راستہ ہے۔ جو بات گالی سے شروع ہوتی ہے، وہ گولی پر ختم ہوتی ہے اور گولی جمہوریت کی زبان نہیں سمجھتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).