مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن، ثقافت سے ہم آہنگ ہو تو اس کی افادیت سے انکار نہیں


آج کل، میڈیا اور ٹی وی پروگراموں میں سب سے زیادہ عمل دخل مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن کا ہے۔ مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن ہمیشہ سے میڈیا کی ضرورت رہی ہے، مگر اب اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مارکیٹنگ کی تعریف میڈیا ہاؤس اور کمپنیوں نے اپنے طریقے سے شروع کر دی ہے، کہ کس پروگرام کی زیادہ مانگ ہے یا مالی طور پر میڈیا ہاؤس اور پروڈکشن کمپنی کی ضروریات کو پورے کرے گا۔ مارکیٹنگ کا تعین جو سامعین، ناظرین کے حوالے سے کبھی کیا جاتا تھا، اب ان لوگوں کے جو مارکیٹ متعین (ٹی وی چینل اور پروڈکشن ہاوس) کرتے ہیں۔ ان کے اپنے مفادات ہیں اس لئے، جو ان کا دل کرتا ہے، وہی دکھایا جا رہا ہے۔

پروڈکشن ہاوس اور ریکارڈنگ کمپنیوں، فنکاروں، لکھاریوں اور پروڈیوسروں کی ہمیشہ ایک دوسرے کی ضرورت رہی، دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے ضروری رہے ہیں۔ ماضی میں بڑے نام، اپنے فن کو عوام تک پہنچانے کے لئے ان کا سہارا لیتے تھے اور پروڈکشن ہاوس کو بھی ان کے فن سے کاروباری اور مالی فائدہ ملتا تھا۔ چناں چہ فلم اور ٹی وی کے ڈائریکٹر، رائٹر اور اداکار نے اپنے نام اور کام سے اپنی مارکیٹنگ ورلڈ بنایا، بڑے بڑے نام پیدا کیے جن کی ایک طویل فہرست ہے۔

اب بڑے نام کیوں نہیں پیدا ہو رہے؟ اگر تین سے سات کروڑ آبادی میں نور جہاں، مہدی حسن، خان، خواجہ خورشید انور، پرویز ملک، یاور حیات، نصرت ٹھاکر، روحی بانو، معین اختر، صبیحہ خانم، محمد علی، وحید مراد، طالش، منور ظریف، قتیل شفائی، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، منو بھائی (یہ چند نام نمونے کے طور پر ہیں)، حیسے نام پیدا ہوئے تو اکیس بائیس کروڑ میں اب ایسے بڑے نام کم کیوں ہیں؟ ان کو موقع نہیں مل رہا، وہ ان پروڈکشن ہاوس کی اجارہ داری کی نذر ہو رہے ہیں۔

ابتدا میں پی ٹی وی کی زیادہ تر پروڈکشن اپنی تھی، نوے کی دہائی میں پہلی دفعہ پرائیویٹ چینل اور ریکارڈنگ کمپنیوں نے پروڈکشن شروع کی۔ 2001 کے بعد بہت زیادہ نجی چینلز، جن میں زیادہ تر نیوز چینل اور کچھ انٹرنیمنٹ چینل شامل ہیں، نے کام شروع کیا۔ کوئی بھی انٹرٹینمنٹ چینل وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا، جو نیوز چینل نے حاصل کی (نیوز چینل انٹرٹینمنٹ کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں)۔ بریکنگ نیوز جو پہلے کبھی کبھی کسی وقت اور اہم واقعے کی سنتے تھے، ہر پانچ منٹ بعد آنے لگی۔ چناں چہ بریکنگ نیوز کی دوڑ اور سب سے پہلے خبر نشر کرنے اور کریڈٹ لینے کی دوڑ شروع ہو گئی۔

نیوز چینل کا خبر کے بعد سب سے اہم اور بڑا شعبہ پرائم ٹائم شو، جو شام کے بعد رات 11 بجے تک نشر ہوتے ہیں، وہ ریٹنگ اور مقبولیت کا ذریعہ ہیں۔ اس میں زیادہ تر ایک اینکر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو مرغے کی طرح لڑاتا ہے، اور درمیان صرف دانا ڈالتا ہے۔ یہ ٹرینڈ ایسا سیٹ ہوا کہ کچھ لوگ جو اس سے ہٹ کر پروگرام کرنا چاہتے ہیں، ایک دو پروگرام کے بعد دوبارہ اسی ٹرینڈ کو فالو کرتے ہیں۔

کچھ نے فیلڈ میں جا کر پروگرام شروع کیے، مگر ایک تو وہ بہت کم اور دوسرا موضوع وہی ہوتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ماہرین کو بلا کر رائے لی جاتی اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی (سیاستدانوں کو ان کے موقف اور حکومتی ارکان کو پالیسی اور وضاحت کے لئے بلانا چاہیے)، بہت کم اینکر اور بہت کم پروگرام ایسے ہوئے، جن میں صحیح مسائل کو حل کرنے کی نشاندہی کی کوشش کی گئی ہو۔ کچھ چینل نے شروع میں اچھے مباحثے ڈاکیومینٹری اور ہلکے پھلکے تفریحی پروگرام، جو اب لاہوری تھیٹر بن گئے ہیں، کیے۔ مگر اب پولورائزیشن میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ چینل بھی اپنے آپ کو ایک پوزیشن پر لے گئے ہیں۔

تفریحی معلوماتی پروگرام، ادبی اور سائنس اور ثقافتی پروگرام، جو انٹرٹینمنٹ چینل کی خصوصیات تھے، کم ہو گئے ہیں۔ پہلے ایک چینل پر مذہب، ثقافت، سائنس، جدت، فنون، تفریحی، تاریخ کے موضوع پر ڈارامے (ڈرامے کی پروڈکشن خد و خال، عروج و زوال الگ داستان ہے، جو پھر کبھی) دیکھنے کو ملتے تھے۔ اب تمام چینلوں پر ایک جیسے اور ایک ہی موضوع ساس بہو کے جھگڑے اور رشتے داروں کی سازشیں ہیں، جنہوں نے اس آئڈیے کو سٹار پلس سے کاپی کیا، وہاں اب یہ سلسلہ کم ہو گیا ہے۔ بنگلے، پردے، ڈیزائننگ، ساڑھی، جیولری، اس کاروبار کے اشتہار کے لئے یہ ڈرامے وہاں شروع کیے گئے۔ البتہ انہوں نے ’’سی آئی ڈی‘‘ جیسے سسپینس اور ’’جھانسی کی رانی‘‘ جیسے تاریخی ڈرامے بھی پیش کیے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں، دوسرا وہاں کی فلم انڈسٹری بہت بڑی اور انہوں نے مختلف موضوعات کو اپنی کہانیوں میں پیش کیا۔

بھارتی پنجاب میں سکھوں نے اپنی ثقافت کو کتنے اچھے طریقے سے، اپنی فلموں کے ذریعے پیش کیا، کہ آج کل یہ فلمیں نہ صرف اُدھر، بلکہ پاکستان میں بھی شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ ’’کیری آن جٹا‘‘ جیسی مزاح سے بھرپور فلم ’’انگریج‘‘، ’’لاٹو‘‘، ’’دانا پانی‘‘، ’’نکا ذیلدار‘‘، ’’بمپوکاٹ مجی بسترے‘‘ جیسی فلموں سے نہ صرف موجودہ ثقافت بلکہ پچلھے 50 سالوں کی ثقافت اور روایات کو خوبصورتی سے پیش کیا اور جدید پنجاب اور ’’کناڈا لو پنجاب‘‘ جیسی فلموں میں پیش کیا اور مارکیٹنگ اور کمرشلائزیشن کو ثقافت سے آہم آہنگ کیا۔

ہمارے یہاں نہ تو حکومتی سطح پر، نہ کسی بھی ٹی وی چینل کا کوئی ریسرچ اور تحقیق کا سینٹر ہے، جہاں بیٹھ کر یا سروے کے ذریعے ان کی رائے کے مطابق پروگرام ترتیب دیں۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو آسانی سے جانچا جا سکتا ہے۔ پیمرا کا کام صرف زیادہ تر نیوز ریگولیشن سے ہے (یہ ایک الگ بحث ہے پیمرا کے کردار پر) باقی پروگراموں میں صرف کوئی سوشل میڈیا یا کسی پریشر کی وجہ سے ایکشن ہوتا ہے، وہ بھی صرف مواد ہٹانے کا کہا جاتا ہے۔ مارننگ شوز کی مثال سب کے سامنے ہے، کچھ مارننگ شو شروع میں کچھ بہتر تھے مگر اب وہ بھی مارننگ شوز کی مارکیٹنگ والے پروگرام کے زیر اثر ہیں۔

ٹی وی پروگراموں کی مقبولیت کے مطابق مختلف کمپنیاں اپنے اشتہارات چلواتی ہیں، جو کہ چینل اور پروگرام کا سب سے بڑا آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ پروگرام میں ان کا عمل دخل بھی ہو گا، مگر کمرشل چلانے والی کمپنیوں کو سمجھنا چاہیے کہ جتنے زیادہ لوگ پروگرام دیکھیں گے، اتنے زیادہ افراد اس سے واقف ہوں گے۔ اگر وہ ان کمپنیوں اور ٹی وی چینلوں پر زور لگائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).