نئی جمہوری تکون کی قیادت


اسلامی دنیا کی قیادت کے لئے جمہوریت کوبنیاد بنا کر نیا سہ رکنی اتحاد تشکیل دیا جارہا ہے، جس میں کوئی عرب ریاست شامل نہیں ہے۔ مدتوں پہلے قازقستان کے صدر نورسلطان نذر بایوف اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کو مسلم اُمّہ کا رہنما قرار دیا جا رہا تھا، لیکن مہاتیر سیاست سے ریٹائر ہو گئے۔ جب کہ نور سلطان نذر بایوف نے وسط ایشیا کی سیاست سے باہر جانا پسند نہ کیا اور وہ بھی خاموشی سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ اب مہاتیر محمد اپنے جانشینوں کی لوٹ مار سے قوم کو بچانے کے لئے دوبارہ میدان میں آئے اور ووٹ کی پرچی کو برچھی بنا کر لٹیروں کو مار بھگایا۔ اُدھر ترکی میں اردگان اور اِدھر پاکستان میں عمران خان منظر پر طلوع ہوئے، لہذا اب ساری امیدیں اس جمہوری تکون سے وابستہ کی جا رہی ہیں۔

مسلم دنیا کی سر بلندی وہ خواب ہے، جس کی آرزو میں، کروڑوں تہہ خاک جا سوئے۔ کئی مایوس اور بد دل ہوئے اور کئی نے خوب مال بنایا اور دنیا کما لی۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے اب پاکستان، ترکی اور ملائشیا پر مشتمل نیا اتحاد بن رہا ہے۔ دھوکے پر دھوکا کھانے والی امت اب امید بھری نگاہوں سے تینوں ممالک کی قیادت کو دیکھ رہی ہے۔ کیا اس بار امید ابھرے گی؟ یا یہ بھی سمندر کی لہر کی طرح ہی ثابت ہو گی؟ ماہرین کا تجزیہ ہے کہ اس وقت ان تینوں قیادتوں میں باہمی اشتراک عمل، امید کے بر آنے کا باعث بن سکتا ہے۔ واقعی یہ ممکن ہے؟ جہاں دیدہ مہاتیر محمد، آزمودہ کار اردگان اور پرجوش مگر نو آموز کپتان عمران خان، تینوں میں خلوص اور دیانتداری مشترک اوصاف ہیں۔

انقرہ میں مشرق وسطی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہرحسین باگسی کے تجزیے میں: ”اسلامی دنیا کو نشاتہ ثانیہ کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بیان دیا ہے، کہ یہ ممالک ایسے نئے منصوبے شروع کر سکتے ہیں جن سے اسلامی دنیا اسلامی سائنس، ٹیکنالوجی، دفاع جیسے شعبہ جات میں مسابقت کے تو قابل بن سکیں“۔

ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ”ترکی، ملائیشیاءاور پاکستان میں اتحاد و یک جہتی اسلامی دنیا کے اتحاد کے لئے ضروری ہے“۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ترکی کے چار روزہ دورہ کے موقع پر ترک صدر کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس حوالے سے یہ کہہ کر پوری صراحت کر دی کہ امت مسلمہ کو دوسروں کے تسلط سے نجات پانا ہو گی۔ اس تسلط سے نجات ہی کے لئے ڈاکٹر مہاتیر نے یہ تجویز کیا کہ تین مسلمان ملک یعنی پاکستان، ترکی اور ملائشیا کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ہم دفاع سمیت دیگر کئی شعبوں میں پوری شد و مد سے اپنی آواز دنیا میں بلند کر سکیں گے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق، ان تینوں ممالک کی رائے اس لئے بھی دنیا میں زیادہ پزیرائی حاصل کر سکتی ہے، کیوں کہ تینوں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزاد میڈیا کی اقدار پر کار بند ہیں اور یہ قدر ان تینوں میں مشترک ہے۔ اس بات کا پس منظر اسلامی دنیا میں اکثر ممالک میں رائج آمرانہ اور شاہی طرز حکومت ہے، جہاں آزادیوں کو سلب کیے جانے کے مغرب کی جانب سے اعتراضات بہت زیاد ہیں۔ ان ممالک کی طرف سے اس ضمن میں اول تو با صلاحیت پیشہ وارانہ افراد کی دستیابی کا ایک مسئلہ ہے، دوسرا ان کا اپنا امیج ایسا نہیں جو اس خیال کو فروغ دینے کے لئے سازگار ماحول کا باعث بن سکتا ہے۔ عوام میں پزیرائی کا ایک معاملہ بھی در پیش ہو گا۔

ان تینوں ممالک میں عوام نسبتا آزاد ہیں اور خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ اسلامی دنیا جمود کا شکار ہے۔ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں حکومتیں آتی اور چلی جاتی ہیں لیکن اسلامی دنیا میں معاملہ اس مصداق نہیں۔ ان تینوں ممالک کا ایک پہلو یہ بھی اہم ہے کہ یہ تینوں عرب دنیا سے باہر ہیں۔ اسی لئے تجزیہ نگار اس پہلو کو اہمیت دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے خیال کو پیش کرتے ہوئے عرب دنیا کا نام نہیں لیا۔

ترکی، ملائشیا اور پاکستان مسلم اکثریتی ڈی ایٹ گروپ کے بانیوں میں شامل ہیں، جس کے وجود میں آنے کے بنیادی مقاصد میں علاقائی تعلقات کو فروغ دینا، تجارت بڑھانا اور رکن ممالک میں تعاون میں اضافہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ گروپ اپنی حقیقی صلاحیت کے مطابق اب تک اپنے اہداف کو شرمندہ تعبیر نہیں کر پایا۔ اس ناکامی کے اسباب میں اسلامی دنیا میں جمود، بد عنوانی اور بہت زیادہ تقسیم ہونا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جو نسخہ تجویز کیا ہے اس کے ذریعے افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں بھی یک وجود بن سکتی ہیں۔

ملائشیا کے اس باکمال مسلمان رہنما کے دورہ ترکی کو استنبول میں قائم عالمی امور اور اسلام کے مرکز تحقیق کے ڈائریکٹر پروفیسر سمیع اے الآریان نے تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا، کہ صدر اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر محمد عالم اسلام کے وہ رہنما ہیں، جنہیں عوام نے جمہوری عمل کے ذریعے بار بار منتخب کیا ہے۔ دونوں اپنے اپنے ممالک میں اپنی صلاحیتوں اور کردار کے ذریعے سیاسی استحکام اور معاشی تنوع لائے ہیں۔

ڈاکٹر مہاتیر نے ایک ایسے موقع پر ترکی کا دورہ کیا ہے، جب دونوں حکومتوں کو معاشی اور سیاسی کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر معاشی غیر یقینی کی صورت احوال کے پیش نظر بھی یہ ملاقات نہایت اہم ہے۔ دوسری جانب مشرق وسطی میں آگ کو ہوا دینے کی سازشوں، امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ اور دیگر علاقائی مسائل در پیش ہیں۔

ایک طرف ایران کے ساتھ کشیدگی نے خطے میں جنگ کے مہیب سائے منڈلا رہے ہیں تو دوسری طرف روس سے ایس 400 فضائی دفاع کے لئے نظام ترکی کو ملنے جانے پر ناک بھوں چڑھائی جا رہی ہے، دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور رشتے ناتے توڑنے کی دھونس دی جا رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس صورت احوال ہی نے دونوں رہنماؤں کی ملاقات کی راہ ہموار کی ہے، تا کہ وہ بڑھتے ہوئے معاشی اور سکیورٹی کے دباؤ میں جوابی حکمت عملی مرتب کر سکیں۔

اسی ملاقات کے تناظر میں مزید پیش رفت، ترک صدر طیب اردگان کا وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ جنوری 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے ترکی کا دورہ کیا تھا، جس کے دوران مختلف شعبوں میں تعاون اور دو طرفہ اشتراک عمل کو وسعت دینے پر اتفاق ہوا تھا۔ دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ترکی کے درمیان مختلف شعبوں میں اب تک کے تعاون کی سطح اور کیفیت کا بھی جائزہ لیا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطحی سٹرٹیجک تعاون کونسل کا اجلاس رواں سال اسلام آباد میں ہونا طے ہے۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے اس اجلاس میں یقیناََ ماضی سے بڑھ کر تعاون دیکھنے کو ملے گا اور شاید نسبتاَ بڑے درجے میں فیصلے ہوں گے۔ اس اجلاس کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ترک صدر طیب اردگان اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔

ترک صدر کی گفتگو کا بنیادی مقصد ہی پاکستان، ملائشیا اور ترکی کے سہہ ملکی تعاون کے ڈاکٹر مہاتیر محمد کے خیال کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ ایک مثالی اتحاد ثابت ہو سکتا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ تینوں رہنماؤں کا عالمی قد کاٹھ اور ان کی توجہ کا مرکز و محور بھی خاص ہے، عمومی بادشاہت، حکومت اور ذاتی مفادات سے بالا تر سوچ رکھنے کی بنا پر ان تینوں رہنماؤں کو نہ صرف اسلامی دنیا میں ایک خاص احترام حاصل ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی انہیں ایماندار، اہل، معتدل مزاج اور عوام دوست رہنماؤں کی شناخت حاصل ہے۔

یہ تینوں رہنما اگر مل کر آگے بڑھتے ہیں تو بلا شبہ اسلامی نشاتہ ثانیہ کو اب ایک خواب غلط سمجھنے والی اکثریت کی امیدیں ایک بار پھر زندہ ہو جائیں گی۔ یہ تینوں رہنما ایک اور لحاظ سے بھی بہت مثالی تصور ہوتے ہیں کہ ان اپنے اپنے ممالک میں کامل اختیار حاصل ہے، جس کی بنا پر وہ دبنگ فیصلے لے سکتے ہیں، وہ ایسے فیصلے کرنے کی جرات رکھتے ہیں کہ جن سے تینوں ممالک کا ایک ایسا محور تشکیل پا جائے جو اسلامی دنیا کے لئے ایک مثال بن کر ابھرے اور پوری اسلامی دنیا کے لئے فیوض و برکات کا باعث بن جائے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).