افغان بحران کا حل


اس وقت عالمی دنیا سمیت خطہ کے ممالک کی توجہ کا مرکز افغانستان کے بحران کا حل ہے۔ یہ جو نئے سیاسی امکانات افغان بحران کے تناظر میں پیدا ہورہے ہیں اس نے عالمی دنیا سمیت علاقائی ممالک کو ایک نئی امید دی ہے۔ کیونکہ افغان بحران کا حل محض افغانستان کے داخلی معاملات تک محدود نہیں بلکہ خود علاقائی یا خطہ کی سیاست سمیت اس کے سیاسی تانے بانے افغان بحران کے حل سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نئے امکانات میں بھی افغان بحران کا حل بہت سادہ یا آسان نہیں۔ کیونکہ افغان بحران ایک پیچیدہ مسئلہ ہے او را س بحران کو حل کرنے کے لیے امریکہ سمیت ان کی اتحادی افواج نے جو طاقت کا استعمال کیا وہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکا۔

اس وقت علمی دنیا سمیت امریکہ کو یہ بات تسلیم کرنی پڑی ہے کہ افغان بحران کا حل طاقت یا بندوق کی گولی سے نہیں بلکہ مذاکر ات کی میز پر سجے گا اور جو کچھ بھی معاملات طے ہوں گے وہ مذاکر ات کے نتیجہ میں ہی سامنے آئے گا۔ افغان بحران کے حل میں ایک بڑا فریق افغانستان کے طالبان ہیں۔ افغان طالبان مذاکر ات تو چاہتے ہیں لیکن ان کی شرط ہے کہ مذاکر ات ان کی شرائط پر ہوں اور ان ہی کو مذاکر ات کی میز پر سیاسی بالادستی حاصل ہو۔ کیونکہ افغان طالبان کا موقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے طاقت کے استعمال کی ناکامی پر مذاکر ات کی میز سجی ہے اور یہ خود طالبان کی بڑی کامیابی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بڑی کامیابی کو مذاکر ات کی میز پر بھی جیتنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی سیاسی پسپائی کا تاثر قائم نہ ہو۔

امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ اس برس میں افغان بحران کا کوئی ایسا حل سامنے آسکے جو افغان بحران سے جڑے تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ امریکی صدر کی کوشش ہے کہ وہ نئے انتخابات میں اس سوچ کو کامیابی سے پیش کرے کہ اس کی مدبرانہ قیادت میں افغان بحران کا حل نکل کر سامنے آسکا ہے۔ کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ افغان کارڈ کو امریکی انتخاب میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنا اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اس برس تک افغان بحران کا کوئی نہ کوئی سیاسی حل چاہتے ہیں۔ اس عمل میں امریکی صدر کا بڑا انحصار پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص عسکری قیادت پر ہے۔ کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ افغا ن بحران کا حل پاکستان کی بڑی حمایت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ اور فوج کے سربراہ جرنل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں امریکہ کے سامنے بڑا ایجنڈا ہی افغان بحران کے حل سے جڑے مسائل تھے۔ امریکہ میں سیاسی اور فوجی قیادت کی بڑی پزیرائی کی بھی بڑی وجہ افغان بحران کا حل ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ بحران کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ افغان طالبان او رافغان حکومت کے درمیان موجود بداعتمادی کے مسائل ہیں اور دونوں فریق بالخصوص افغان طالبان فوری طور پرافغان حکومت سے براہ راست مذاکر ات کے حامی نہیں۔

ان کے بقول غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد ہی انٹرا افغان مذاکر ات کا آغاز ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دعوی کیا ہے کہ بہت جلد ہی لوگ طالبان سے مذاکر ات کی بڑی خوش خبری سنیں گے۔ افغان طالبان نے پاکستان سے براہ راست مذاکر ات کی حامی بھری ہے او راس تناظر میں پاکستان کی جانب سے براہ راست افغان طالبان قیادت کو مذاکر ات کے لیے دعوت نامہ بھیجے جارہے ہیں۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں دعوی کیا ہے کہ وہ بہت جلد افغان طالبان سے براہ راست مذاکر ات کریں گے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر فوری طور پر براہ راست افغان حکومت او رطالبان کے درمیان مذاکر ات نہیں بھی شروع ہوتے تو بھی یہ امکان موجود ہے کہ افغان طالبان او پاکستان کے درمیان مذاکر اتی عمل شروع ہو او رپاکستان ان دونوں فریقین کے درمیان ابتدائی طور پر پل کا کردار ادا کرے گا۔

یہ بات بھی موجود ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان سے مذاکر ات کے تناظر میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی دورہ پاکستان میں اعتماد میں لیا ہے اور خو د افغان صدر کی خواہش ہے کہ پاکستان اس میں کلیدی کردار ادا کرے۔ کیونکہ افغان حکومت پوری طرح ناکامی سے دو چار ہے کہ وہ افغان طالبان کو براہ راست مذاکر ات پر راضی کرسکیں۔ لیکن یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغان طالبان پر پاکستان یقینی طو رپر اپنا اثر ضرور رکھتا ہے، مگر یہ سمجھنا کے افغان طالبان پاکستان کے Puppetہیں تو یہ غلطی ہوگی۔

افغان طالبان یقینی طور پر اپنا مفاد دیکھیں گے او ر جہاں ان کو محسوس ہوگا کہ معاملات ان کے مفاد میں ہے تو اپنی رضامندی دیں گے۔ اس لیے امریکہ کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ محض یہ سمجھ کر کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر سب کچھ حاصل کرلے گا، ممکن نہیں۔ امریکہ کو بھی کچھ ایسا کرنا ہوگا جو طالبان کو لگے کہ یہ حل ان کے مفاد سے جڑا ہے اور اگر انہوں نے اس حل میں خود کو شامل نہیں کیا تو ان کو سیاسی نقصان ہوگا۔

افغان طالبان کو لگتا ہے کہ اصل طاقت امریکہ کے پاس ہے اور امریکہ پاکستان کی مدد سے مسئلہ کا حل چاہتا ہے کیونکہ وہ ہر صورت میں انخلا کا حامی ہے۔ اس لیے ان کے بقول اصل طاقت افغان حکومت نہیں بلکہ امریکہ ہے او ران ہی سے معاملات طے کرنے ہوں گے۔ لیکن خود طالبان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے سخت موقف پر قائم رہتے ہیں تو یہ مذاکر اتی عمل کسی بھی صورت میں نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ اس لیے افغان طالبان ہو یا افغان حکومت دونوں کو اپنے اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی جو فریقین کے قابل قبول ہو۔

کیونکہ سخت گیر موقف دونوں کے لیے سو د مند نہیں ہوگا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان اپنی فکر میں توازن نہیں پیدا کریں گے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ان کو ایک توازن کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر اب مسئلہ کا حل نہ نکل سکا تو مستقبل میں اس کے امکانات کم ہوں گے جو خود ان کے اپنے مفاد میں بھی نہیں۔ ان کی حالیہ سخت گیر پالیسی دباؤ کو بڑھانے کی حکمت عملی ہوسکتی ہے۔

فغان بحران کا حل سب کی ضرورت ہے اور سب فریقین مسئلہ کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن یہ کام کسی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور سب کو مل کر اس بحران کے حل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت اچھی بات یہ ہورہی ہے کہ افغان بحران کے حل میں پاکستان، افغان، امریکہ سمیت روس، چین، ترکی سعودی عرب سمیت کئی دیگر ممالک بھی پیش پیش ہیں۔ کیونکہ سب ہی افغانستان کاحل چاہتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ افغان بحران کا حل نہ نکل سکا تو اس سے خطہ کی سیاست میں انتشار سمیت مزید تشدد بڑھے گا جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔

اصل مسئلہ نئے انتخابات کی صورت میں وہاں کی بننے والی حکومت ہوگی۔ کیونکہ اگر ایک ایسی مخلوط حکومت بنتی ہے جس میں سب فریقین شامل ہو تو وہ کچھ اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ مسئلہ کاغذوں میں افغا ن بحران کا حل نہیں ہے او رنہ ہی محض انتخابات کا عمل کچھ بڑا ثابت کرسکے گا۔ اصل چیلنج انتخابات کے بعد بننے اولی حکومت او راس کے نتیجہ میں امن کو برقرار رکھنا اور ایسی طرز حکومت قائم کرنا جو سب مل کر افغان امن میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔

کیونکہ اگر امریکہ نے افغانستان سے انخلا کرنا ہے تو اس کے بعد افغان حکومت کو خود امن کو قائم رکھنا ایک بڑ ے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول فوری انخلا افغان حل کے لیے سود مند نہیں ہوگا اور وہاں کچھ عرصے کے لیے امریکی فوجیوں کو رکھنا ہوگا او رایک وقت کے بعد انخلا کا عمل شروع ہونا چاہیے۔

پاکستان کے لیے اہم بات یہ ہے کہ اس نے امریکہ کو جو باور کروایا ہے کہ وہ افغان بحران کے حل میں آخر تک جائیں گے او رجو حالیہ بحران افغان حکومت او رافغان طالبان میں ہے اس کو ختم کریں گے۔ یہ یقینا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کے لیے چیلنج ہوگا اور اس وقت عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بھی پاکستان ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنے ہوں گے او راپنے کارڈ اس انداز سے کھیلنے ہوں گے کہ ہم گیند کو کورٹ میں پھینک سکیں۔ کیونکہ خود پاکستان او رامریکہ کے بہتر تعلقات کی کنجی بھی افغان حل سے جڑی ہے او راگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے امریکہ کا بھی ہم پر اور زیادہ اعتماد بڑھے گا جو خود پاکستا ن کے اپنے مفاد میں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).