حکومت اس ہیرا پھیری پر بھی توجہ دے


ہر وہ بات جس میں ملک و قوم کا مفاد وابستہ ہو اس کو مشتہر کرنا اور اس کو ہر عام و خاص تک پہنچانا ہر فرد پر فرض ہو جاتا ہے۔

کچھ جرائم بظاہر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ہر دیکھنے والی آنکھیں، سننے والے کان اور سوچنے سمجھنے والا دماغ ان کو معمولی خیال کرکے نظرانداز کر دیتا ہے لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو وہ معمولی سا جرم ملک و قوم پر بڑے بھیانک نتائج مرتب کررہا ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک پیغام مجھے واٹس اپ کے ذریعے میری بہن نے بھیجا ہے۔

پردہ داری کی وجہ سے میں اس کا نام تحریر نہیں کرنا چاہتا۔ اسے بھی یہ پیغام کسی اور کے توسط سے موصول ہوا تھا جس میں ایک نہایت معمولی نوعیت کا جرم کرنے اور دھول مٹی میں کھیلنے والا سونے کے سکوں میں کھیلنے لگا اور اگر ایک کھرب پتی بظاہر نہایت معمولی نوعیت کے جرم کو آشکار نہ کرتا اور ہر روزاپنے کھاتے سے ایک ”پھوٹی کوڑی“ کے کم ہوجانے کی شکایت بینک منیجر سے نہ کرتا تو نہ جانے وہ گلیوں کی دھول مٹی چاٹنے والا فراڈیا کتنا امیر ہوجاتا اور اس کے دیکھا دیکھی کتنے اور معصوم اس کے جیسے بن کر معاشرے کے لئے درد سری بن جاتے۔

کسی کے اکاؤنٹ میں سے پاکستانی کرنسی کے مطابق اگر روز صرف ایک پیسہ نکال لیا جائے تو بھلا کسی کو کون سا بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن روزانہ ہزاروں لوگوں کے کھاتوں سے صرف ایک پیسہ نکالنے والا کئی ماہ و سال میں کتنی بڑی رقم کا مالک بن سکتا ہے، اس کا اندازہ کرنا بے شک بہت مشکل تو نہیں لیکن جن جن دولت مندوں سے روز کے حساب سے صرف ایک پیسہ نکالا جارہا ہو ان کو بہر حال اس معمولی سی کمی کا کیا احساس ہو سکتا تھا۔

کچھ لوگ حساب کتاب کے معاملے میں بہت ہی محتاط اور سخت ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ حساب ہمیشہ پائی پائی کا رکھنا چاہیے البتہ بخشش کے معاملات اور ہوتے ہیں وہ لاکھوں کروڑوں کی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے ہی ایک یہودی سرمایہ دار کے حوالے سے ایک قصہ ذیل میں فرض سمجھ کر درج کر رہا ہوں، ساتھ ہی ساتھ ارباب حکومت اور ارباب اختیار سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پر بہت ہی خاص انداز سے غور و فکر کی جائے تاکہ جو جو بھی اس بات کو نہایت معمولی سمجھ کر دانستہ یا نادانستہ، نظرانداز کررہے ہوں وہ سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو اٹھائیں تاکہ بظاہر نہ نظر آنے والی بدعنوانی پر بند باندھا جا سکے اور ملک کی دولت کو کرپٹ لوگوں سے بچایا جاسکے۔

ایک نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشیر تھا، اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا بن گیا۔ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاونٹس سے ایک ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاونٹ میں ڈال دیتا تھا، وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاونٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لیے، آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا۔ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنا بینک اسٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا کہ اس کے اکاونٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا، اسے اپنے سارے بینک اسٹیٹمنٹس دکھائے اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا

منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا کر ایک قہقہہ لگایا اور دراز سے ایک پاونڈ نکال کر یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا، یہ لیجیے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا۔ یہودی تاجر ناراض ہو گیا، اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا، میرے پاس دولت کی کمی نہیں، میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا چاہتا تھا۔ وہ اٹھا اور بینک سے نکل گیا، یہودی تاجر کے جانے کے بعد منیجر کو شکایت کی سنگینی کا اندازا ہوا، اس نے تفتیش شروع کرائی تو شکایت درست نکلی اور یوں یہ نوجوان پکڑا گیا۔

یہ لندن کا فراڈ تھا۔ لیکن ایک فراڈ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ اس فراڈ کا تعلق پیسے کے سکے سے جڑا ہے، پاکستان کی کرنسی یکم اپریل 1948 ء کو لانچ کی گئی تھی۔ اس کرنسی میں چھ سکے تھے، ان سکوں میں ایک روپے کا سکہ، اٹھنی، چونی، دوانی، اکنی، ادھنا اور ایک پیسہ کا شامل تھا۔ پیسے کے بھی سکے ہوتے تھے جن کوپائی کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ایک روپیہ 16 آنے یا 64 پیسوں کے برابر ہوتا تھا۔

یہ سکے یکم جنوری 1961 ء تک چلتے رہے۔ 1961 ء میں صدر ایوب خان نے ملک میں اعشاریہ نظام نافذ کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جبکہ اٹھنی، چونی، دوانی اور پائی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے، پچیس پیسے، دس پیسے، پانچ پیسے، دو پیسے اور ایک پیسے کے سکوں نے لے لی۔

یہ سکے جنرل ضیاءالحق کے دور تک چلتے رہے لیکن بعدازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آج سب سے چھوٹا سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے پچھلے تیس برسوں سے ایک پیسے، دو پیسے، پانچ پیسے دس پیسے، پچیس پیسے اور بچاس پیسے کا کوئی سکہ نہیں دیکھا، لیکن کیوں۔ ؟

کیونکہ سٹیٹ بینک یہ سکے جاری ہی نہیں کر رہا، پھر بھی آپ حکومت کا کمال دیکھیے، حکومت جب بھی پیٹرول، گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ ساتھ پیسے ضرور شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ پیٹرول کے تازہ ترین اضافے ہی کو لے لیجیے، حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 5 روپے 92 پیسے اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 113 روپے 89 پیسے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 124 روپے 43 پیسے ہو گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ملک میں پیسے کا کوئی سکہ ہی موجود نہیں تو ہر اضافے میں پیسوں کا ذکر کیوں، لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے گا توکیا پمپ کا کیشیر اسے باقی پیسے واپس کرے گا۔ ؟ نہیں وہ بالکل نہیں کرے گا چنانچہ اسے لازماً راؤنڈ فیگر میں پیسے ادا کرنے ہوں گے یعنی اگر کچھ پیسے خرچ کیے گئے روپوں سے کچھ بڑھ رہے ہوں گے تو اس کو پمپ والا یا کوئی بھی دکاندار پورا روپیہ شمار کرکے صارف سے وصول کر لے گا۔ کیا یہ زیادتی، کرپشن یا فراد نہیں؟

اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجئے۔ پاکستان میں روزانہ 3 لاکھ 20 ہزار بیرل پیٹرول فروخت ہوتا ہے۔ آپ اگر اسے لیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ 5 کروڑ 8 لاکھ 80 ہزار لیٹرز بنتا ہے۔ آپ اب اندازا کیجئے اگر پٹرول سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہرلیٹرپر کم و بیش 87 پیسے اڑاتی ہیں تویہ کتنی رقم بنے گی، یہ تقریباً 4 کروڑ 42 لاکھ 65 ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں۔ یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پیٹرول نہیں ڈلواتے۔

صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پیٹرول بھی خریدتے ہیں اور بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پیسوں کی ہیراپھیری اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے اگر کوئی معاشی ماہر اس اشو پر تحقیق کرے، وہ پیسوں کی اس ہیرا پھیری کو مہینوں، مہینوں کو برسوں اور برسوں کو 30 سال سے ضرب دے تو یہ اربوں روپے بن جائیں گے۔ گویا ہماری سرکاری مشینری 30 برس سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچاتی رہی ہے اور حکومت کو یا تو معلوم نہیں یا وہ در پردہ اس بدعنوانی میں برابر کی شریک ہے۔

ہم اگر اس سوال کا جواب تلاش کریں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کرپشن کا والیم ساڑھے چار کروڑ روپے نہ ہولیکن اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب اسٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کررہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں ماپ رہی ہے اور ہم ”راونڈ فگر“ میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں؟

ہم 62 روپے 13 پیسوں کو 62 روپے کر دیں یا پھر پورے 63 روپے کر دیں تا کہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت ہو جائے، حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کوئی ہیرا پھیری ضرور موجود ہے کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی جس میں اسے کوئی فائدہ نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).