علی سردار جعفری کا وصیّت نامہ


آج علی سردار جعفری صاحب کے انتقال کو انیس برس گزر گئے ہیں۔ ادب میں ان کے نام اور ان کے کام کے حوالے سے انہیں یاد کرنے والے بہت کچھ لکھ رہے ہیں اور آگے بھی لکھتے رہیں گے۔ میں آج صرف ان کی روز مرہ زندگی کے حوالے سے مختصراً اپنی یادداشت کو سمیٹنے کی کوشش کروں گی۔ میں انیس سو چوراسی میں جب پہلی بار ان کے گھر گئی تو اس سادہ سے رہن سہن کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ بنیادی ضرورتوں کے سوا سامان تعیش کا اس گھر میں کوئی تصور نہیں تھا۔ ان کے یہاں مہمان خانے میں دروازے کے ساتھ ایک بڑی رائٹنگ ٹیبل تھی اور سامنے دیوار کے ساتھ بک شیلف۔ بک شیلف کے سامنے رنگین پلاسٹک سے بنی ہوئی لوہے کی چند معمولی کرسیاں مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے تھیں۔ سامنے دو تخت بچھے ہوئے تھے ایک دیوار کے ساتھ کھڑکی کے قریب اور دوسرا اسی کے سامنے دوسری دیوار کے ساتھ رائٹنگ ٹیبل کی پشت پر۔ بعد میں پتہ چلا کہ سردار جعفری صاحب کی لائبریری یا اسٹڈی تو صرف میز کرسی تک محدود ہے باقی یہ کمرہ بیک وقت رباب اور ستارہ جعفری کا بیڈ روم بھی ہے اور مہمان خانہ بھی۔ مہمان کی آمد پر تخت کی چادر درست کر دی جاتی اور گاﺅ تکیوں کو سلیقے سے لگا دیا جاتا تھا۔ میرے سامنے ایک بار اطلاع ملی کہ ترکی کے رہنما ان سے ملنے آ رہے ہیں۔ اس موقعے پر تخت پر عمدہ کڑھائی کی چادریں بچھا دی گئیں اور گاﺅ تکیوں پر اسی طرح کے غلاف چڑھا دئیے گئے۔ ان کے جانے کے بعد وہ تہہ کر کے رکھ دیے گئے۔

جعفری صاحب کی دوچھوٹی بہنیں ستارہ جعفری اور رباب جعفری 1950 کے اوائل میں اپنی نوجوانی کے زمانے میں ہی آبائی گھر بلرام پور سے بمبئی منتقل ہوگئی تھیں اور تمام عمر بھائی کے پاس ہی رہیں۔ ان کا روز مرہ کا معمول یہ تھا کہ سردار صاحب جونہی میز کی طرف آتے ستارہ جعفری ان سے بات کرنا شروع کردیتی تھیں۔ وہ بھی انتہائی توجہ سے ان کی پوری بات سنتے تھے۔ حالانکہ اکثر میں نے محسوس کیا کہ وہ کل والی بات آج پھر دہرا رہی ہیں۔

ایک بار بہت ایمرجنسی میں دور درشن کی کوئی ریکارڈنگ تھی۔ انہیں اسکرپٹ لکھنا تھا۔ ٹی والوں کا فون آیا کہ جعفری صاحب ہم ابھی پہنچ رہے ہیں۔ وہ فون رکھ کربڑی عجلت میں میز کی طرف گئے اور ساتھ یہ ہدایت بھی کرتے گئے کہ سلطانہ ذرا ناظم کے بچوں (پوتا اور پوتی) کو تھوڑی دیر کے لئے کہو شور نہ کریں۔ لیکن وہ جونہی اپنی رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھے ان کی چھوٹی بہن ستارہ جعفری نے جو کہ عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ گراں گوش بھی ہوگئی تھیں حسب عادت اپنی بات شروع کر دی۔ پہلے انہوں نے کہا ستارہ ذرا میں کچھ لکھ رہا ہوں۔ یہ لکھ لوں پھر تم سے بات کرتا ہوں۔ لیکن وہ اپنی رو میں بولتی رہیں۔ لیکن نہ ہی دوبارہ سردار صاحب نے انہیں ٹوکا اور نہ ہی اکتائے۔

ایک بار گھر میں رنگ روغن کروانے کا ذکر نکلا۔ پتہ چلا کہ دوتین سال سے دودا (بچے انہیں دودا پکارتے تھے) روغن نہیں ہونے دیتے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ انہوں نے کہا آئیے میں آپ کو دکھاﺅں کہ کیوں۔ پھردیوار پر اپنے ننھے پوتے اقبال کے ہاتھ کی بنی ہوئی ٹیڑھی میڑھی لکیروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، دیکھو کیسی عمدہ ڈرائنگ ہے! بچے کا تخیل ہے یہ اور یہ لوگ کہتے ہیں اسے مٹا دو۔ آخر اس میں خرابی کیا ہے۔ مجھے تو یہ دیواریں ایسی ہی اچھی لگ رہی ہیں۔ اور ہنستے ہوئے چلے گئے۔

لکھتے وقت اقبال اور مہناز اکثر ان کے ارد گرد کھیلتے رہتے تھے۔ اور اگر کوئی ٹوکنا چاہتا تو وہ اسے روک دیتے تھے۔ وہ بچوں سے مخاطب ہوتے وقت تھوڑا سا جھک کر اپنے آپ کو اس کے قد کے برابر لے آتے تھے۔ اور عموماً سرگوشی کے انداز میں بات کرتے تھے جیسے ہم جولی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ وہ بچوں سے چھیڑ کر بات کرتے تھے۔ اور خاص ڈرامائی انداز میں سوال جواب کیا کرتے تھے۔

میں بچپن سے سنتی آئی تھی کہ عید یا تو بچوں کی ہوتی ہے یا پھر ان کی جو تیسوں روزے رکھتے ہیں۔ شادی کے بعد بمبئی میں میری وہ پہلی عید تھی۔ میں نے دیکھا علی الصبح گھر میں ایک گہما گہمی کا سماں ہے۔ سردار جعفری صاحب نیا کھڑکھڑاتا ہوا کرتا پاجامہ زیب تن کئے بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ اور بار بار گھڑی دیکھ رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ صبح کے سات بج گئے ہیں اور عید کی تیاریاں مکمل نہیں ہیں۔ باورچی خانے میں سلطانہ آپا اور ناظم بھائی کی بیوی دونوں ساس بہو عید کے پکوان کی تیاری میں مصروف تھیں۔ میں نے کہا مجھے بتائیے میں کچھ کروں۔ نور بھابی نے کہا بس شیر خرمہ تیار ہے۔ اور پلاﺅ کی یخنی چڑھانے جا رہی ہوں۔ میں نے کہا میں آج آپ کو اپنے ہاتھ کی بہت اچھی بریانی کھلاﺅں گی۔ میں نے بھی تازہ تازہ سندھی بریانی بنانی سیکھی تھی جس کے مظاہرے کا یہ نادر موقع تھا۔ نور بھابی نے پہلے مجھے ٹالنے کی کوشش کی لیکن پھر مروت میں خاموش ہو رہیں۔ میں نے جب سارا ہرا مصالحہ تیار کرلیا تو سردار صاحب کی نظر پڑی وہ غالباً ہرا مصالحہ دیکھ کر چونکے۔ میں نے دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد نور بھابی گھبرائی ہوئی آئیں اور بولیں عشرت یہ مصالحہ رکھ دو! میں نے کہا کیوں ؟ بولیں دودا کہہ رہے ہیں۔۔ حالانکہ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ سندھی بریانی کیا ہوتی ہے لیکن۔۔ ابھی نور بھابی کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وہ خود آگئے اورقطعیت کے ساتھ بولے، آپ کی بریانی ہم کسی اور دن کھا لیں گے۔ آج تو ہمارے یہاں یخنی پلاؤ  ہی پکتا ہے۔ کیونکہ آج عید کا دن ہے۔ پلاﺅ اور بریانی کا فرق اس روز میری سمجھ میں آیا۔

ترکی شاعر ناظم حکمت کے ہمراہ

 سردار جعفری صاحب عید نہایت روایتی انداز سے مناتے تھے۔ صبح سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ محلے میں سب جگہ صبح صبح سویّاں بھیجی جاتی تھیں۔ پہلے سے نئے نوٹ بھنا کر رکھتے تھے۔ اور سب کو عیدی بانٹتے تھے۔ ان کی فکر اور ان کے نظریات کے بارے میں میرا جو امیج تھا اس کے بعد ان کی شخصیت کا یہ پہلو بہت انوکھا معلوم ہوا۔ لیکن آگے چل کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کے ہاں ظلم اور ناانصافی کے خلاف احتجاج اور بغاوت تھی۔ خوبصورت روایات اقدار اور مذہب کے خلاف ہرگز نہیں۔ اسی لئے عملاً وہ اپنے رشتوں اور قدروں سے جڑے ہوئے انسان تھے۔ ان کا ملازم گوونداس گھر میں آیا تو اسی گھر کا ہو رہا۔ ان کی دو چھوٹی بہنیں 1955ء سے لے کر تادمِ مرگ ان کے ساتھ رہیں۔

پہلی بار جب میں ان کے ہاں مقیم تھی اس وقت بمبئی کے مضافات میں غیر معمولی حالات کی بنا پر فضا بے حد مکدّر تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی یا شاید گھنٹی بجی۔ دروازہ کھلا تو ماتھے پہ بڑی سی بندیا اور سیندور بھری مانگ والا ایک گول سا مسکراتا ہوا چہرہ برآمد ہوا اور آواز آئی جعفری بھائی۔۔ میں ابھی کچھ پوچھنے ہی والی تھی کہ وہ باہر نکل گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سامنے والے پڑوسی ہیں۔ گجراتی فیملی۔ دونوں میاں بیوی جعفری صاحب کے مداح ہیں۔ ٹی وی پر جعفری صاحب کا پروگرام آ رہا ہو تو پوجا پاٹ چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جعفری صاحب کا کونسا پروگرام کب آتا ہے اس کی اطلاع ان ہی سے ملتی تھی۔ وہ اپنے پروگرام وہیں دیکھتے تھے کیوں کہ جعفری صاحب کے اپنے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔

 بچوں کے لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر آتے تھے۔ روز مرہ زندگی میں گھڑی کی سوئی کے ساتھ کام کرنے کے عادی تھے۔ اور کھانے پینے کے معاملے میں بھی ان کا حساب مقرر تھا۔ صبح میں ایک توس ، مارملیڈ، ایک انڈا اور ایک پیالی چائے۔ دوپہر کو تھوڑے سے چاول دال اور ترکاری لیکن موسم کا پھل ضرور موجود ہوتا۔ اور شام کو صرف ایک روٹی اور قلیہ وغیرہ۔ ایک دن میں نے خاطر میں۔ ایک دن میں نے خاطر میں ایک اور روٹی پیش کی۔ بولے میں ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھاتا۔ ایک خدا، ایک روٹی اور ایک بیوی، یہ میرا ایمان ہے۔

 مئی 2000ء کی بات ہے۔ جب سردار جعفری صاحب کی علالت کی پہلی اطلاع ہمیں ملی۔ ابتدا میں نسیان کے مرض کے آثار معلوم ہو رہے تھے۔ ابھی باہم مشورے ہو ہی رہے تھے کہ ممبئی کے ہسپتال کی ایم۔ آر۔ آئی کی رپورٹ آگئی۔ سردار جعفری کا حافظہ بلا کا تھا۔ وہ سراپا ذہن تھے سو موت نے بھی اسی دروازے سے دستک دی۔ سطانہ آپا سے فون پر بات ہوتی تو وہ کہتیں ، “سردار بالکل خاموش ہو گئے ہیں۔ گم سم سے رہتے ہیں۔ کوئی آتا ہے تو اجنبیوں کی طرح اس کی صورت تکتے رہتے ہیں۔ اخبار دیکھتے ہیں لیکن چہرے کے تاثرات سے ایسا لگتا ہے کہ پڑھ نہیں رہے ہیں۔ صرف دیکھ رہے ہیں۔

میں نے پوچھا کچھ لکھتے بھی ہیں؟۔ انہوں نے کہا نہیں۔ البتہ قلم کاغذ سامنے ہو تو کاغذ پر پھول بناتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بس میرے ذہن میں وہ پھول ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔ اور میں اب بھی سوچتی ہوں کہ ایسے وقت میں جب سرطان نے ان کے دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور مرض نے حافظے کو اس حد تک دھندلا دیا تھا کہ حرف سے ان کا رشتہ باقی نہیں رہا تھا۔ ایسے میں کاغذ پر پھول بنانے کا عمل یقیناً ایک انکشاف کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں دنیا کے بہت سے عظیم لوگوں کے وصیت نامے محفوظ ہوں گے لیکن سفید کاغذ پر نقش یہ سادہ سے پھول ایک ایسا انوکھا وصیت نامہ ہے جو سردار جعفری کی اس عظیم جدوجہد کا اعلان بھی ہے جو وہ محبت اور امن کی بقا کے لئے تمام عمر کرتے رہے۔

انہوں نے اپنے ہم عصر شعراء کے نام نظمیں لکھ کر محبت کی ایک نئی روایت کا آغاز کیا۔ یہی محبت ان کا مسلک تھا۔ ان کے ہاتھ کی کھینچی ہوئی آخری لکیریں شاید وہی “ایک خواب اور” ہے جو انسان ہمیشہ سے دیکھتا آیا ہے۔ اور دیکھتا رہے گا۔ انہیں قلم کی طاقت پر یقین تھااسی لئے ان کا قلم آخری دم تک قرطاس پر پھول کھلاتا رہا۔ جیسے کہہ رہا ہو

جب کونپلیں اپنی انگلی سے مٹی کی تہوں کو چیریں گی

میں پتی پتی کلی کلی اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).