ماہ آزادی کی پہلی صبح آنکھ کھلی تو حسب عادت سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا کر خبروں پر نظر دوڑائی۔ شہ سرخی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں تھی۔ اب یہ اس خبر کا دھچکا تھا یا شاید نیند پوری نہیں ہوئی تھی، پتہ ہی نہ چلا کہ کب موبائل ہاتھ سے گرا اور کب آنکھ دوبارہ لگی۔
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا سا ہال نما کمرہ ہے جس میں بہت سے آرام دہ سرخ مخملی گدیوں والے صوفے نیم دائرے کی شکل میں دھرے ہیں۔ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا ہے۔ ہال کی دیواروں پر چوبی فریموں والی پینٹنگز آویزاں ہیں۔ صوفوں پر بارعب مگر خوش رو خواتین و حضرات لبوں پر مسکراہٹیں سجائے براجمان ہیں۔ اسی سوچ میں غلطاں کہ کہاں آ گیا ہوں میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا ہال کی ایک دیوار کے ساتھ دھری کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ جاتا ہوں جہاں پہلے ہی چند لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے قلم اور مائیک پکڑے ہوئے ہیں۔ چند ایک کے پاس کیمرے بھی ہیں لیکن وہ بیٹھنے کی بجائے کیمرے اور ٹرائی پوڈ تھامے کھڑے ہیں۔
میرے دریافت کرنے پر ساتھ بیٹھا لڑکا دھیمی آواز میں بتاتا ہے کہ خلیفہ وقت نے کابینہ کے چند ارکان سمیت جو ان کی مجلس شوریٰ کا حصہ ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر براہ راست میڈیائی جھروکے سے رعایا کو درشن دینے اور اضافے کی فیوض و برکات سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تاریخی موقعے پر خود کو موجود پا کر میں خوشی سے پھولے نہیں سماتا اور تمام سمعی و بصری حسیات ارکان شوریٰ کی مجلس پر مرکوز کر دیتا ہوں۔
دریں اثنا خلیفہ وقت کی آواز بلند ہوتی ہے۔ قلم اور کیمرے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ رسمی کلمات کے بعد خلیفہ مجلس شوریٰ کے ہنگامی اجلاس کی غرض و غایت بتاتے ہیں کہ آج یہ تمام اہم ارکانِ شوریٰ عوام کالانعام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے گوناگوں فوائد سے خود آگاہ کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے وزیر پٹرولیم کو سب سے پہلے بات کرنے کی دعوت دی۔
وزیر پٹرولیم نے کہا  کہ قیمتوں میں اضافے سے تیل کی مجموعی کھپت میں کمی واقع ہو گی جس سے تیل کی کل کھپت میں ملکی پیداوار کا تناسب جو اس وقت بیس فیصد سے کم ہے بڑھ جائے گا اور ہمیں باہر سے کم تیل درآمد کرنا پڑے گا۔ وزیر پٹرولیم کی بات سے اہل مجلس کے چہروں پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے بعد وزیر خزانہ نے بتایا کہ خلیفہ کے وژن کے مطابق  ہماری سلطنت سے وابستہ ہر شے کی قدر افزائی ہونی چاہئے، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دیں کیونکہ دنیا میں سستی اشیا کی کوئی قدرنہیں۔ وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی کہ اس اضافے سے فوری طور پر سلطنت کے طول و عرض میں ان مصنوعات کی قدر افزائی ہو گی۔ اس باریک نکتے پر خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے ارکان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں خزانے کے وزیر کو داد دی۔ ایک دو پاس والوں کو کہنیاں مار کر داد دینے کی طرف متوجہ کرتے بھی پائے گئے۔
اپنی باری پر وزیر ماحولیات نے عوام کو بتایا کہ مہنگی پٹرولیم مصنوعات سے غیر ضروری گاڑیاں سڑکوں پر نہیں آئیں گی جس سے ماحولیاتی تحفظ میں قابل قدر مدد ملے گی۔ اس بات پر ارکان شوریٰ کے ساتھ ساتھ میرے قریب بیٹھے شکل سے صابر اور شاکر نظر آنے والے صحافیوں نے بھی صوفے کے بازوؤں اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر وزیر ماحولیات کو داد دی۔ وزیر صحت نے اس فیصلے کو صحت کے لیے مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجائے گاڑیوں سے آنے جانے کے پیدل چلنا انسانی صحت کے لیے بہتر ہے۔
میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وزیر داخلہ اس فیصلے میں کیا مثبت پہلو اجاگر کریں گے کہ خلیفہ کے کہنے پر وزیر داخلہ گویا ہوئے۔ مہنگی پٹرولیم مصنوعات ان شرپسند عناصر کی حوصلہ شکنی کا سبب بنیں گی جو ذرا ذرا سی بات پر احتجاج کرنے سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور پٹرول بم ٹائپ ہتھیاروں سے امن عامہ کا تیا پانچا کرتے پھرتے ہیں۔ اپنی بات مکمل کر کے انہوں نے جھرجھری سی لی۔ شاید ان کو وہ وقت یاد آ گیا ہو جب حزب اختلاف کی ایک خاتون رہنما کے قتل کے بعد شرپسندوں نے ملک بھر میں پٹرول بموں کا وافر استعمال کیا تھا۔
خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے اس میڈیائ درشن کو سلطنت کے طول و عرض میں براہ راست دکھایا جا رہا تھا۔ ہال کی ایک دیوار پر لگی بڑی سی سکرین پر مختلف شہروں سے سڑکوں اور گلیوں کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ عوام ہر وزیر کی وضاحت پر جشن مناتے دیکھے جا سکتے تھے۔ گلیوں میں عید کا سا سماں تھا اور مطمئن رعایا ناچ گا رہی تھی۔
اسی دوران خلیفہ کی دعوت پر وزیر خارجہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ملکِ عربستان سے آئے تیل کے تحفے کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کی بجائے سونے کے بھاؤ بیچنے پر تحفہ دینے والے بادشاہ مسرور ہوں گے کہ ان کے تحفے کی قدر کی گئی۔ اس اقدام سے دونوں سلطنتوں کے تعلقات میں مزید مضبوطی آئے گی۔ وزیر ثقافت نے اپنی باری پر بتایا کہ مہنگا ہونے کی وجہ سے کسی کے لیے بھی نو من تیل خریدنا ناممکن ہو گا۔ لہذا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ رادھا اور ناچ کے نام سے فسق و فجور پر مبنی مناظر ذہن میں آتے ہیں جبکہ خلیفہ جو ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں اس کی ثقافت میں فسق و فجور کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
وزیر دفاع سے پہلے خلیفہ وقت نے وزیر اطلاعات کو اپنی وزارت کے حوالے سے اس بابرکت اضافے پر عوام کو آگاہ کرنے کی دعوت دی۔ تاہم وزیر اطلاعات نے عرض کی کہ  آنے والے دنوں میں مجھے ہی ان سب وضاحتوں پر وضاحتیں دینی ہیں اس لیے آج مجھے ایکسکیوز کیا جائے۔ اس وضاحت کو معقول جانتے ہوئے خلیفہ نے سپہ سالار کو اظہار خیال کی دعوت دی۔
سپہ سالار نے کہا کہ جو عوام سمجھنا چاہے، اسے سمجھ لینا چاہئے ، تاحال کہ اسے یہ علم ہو کہ ہم سب کو ہمیشہ ریاستی مفاد کوفوقیت دینی چاہئے۔ اس موزوں اور مبسوط خیال پر حاضرین مجلس نے بجا طور پر داد و تحسین سے ہال سر پر اٹھا لیا اور باہر عوام نے خوشی سے جو کچھ ملا اسے سر پر اٹھا لیا۔ جس کے ہاتھ کچھ نہ آیا اس نے دونوں ہاتھ سر پر رکھ لیے۔  عوام کا مسرت بھرا ردعمل سکرین پر دیکھا جا سکتا تھا۔ سپہ سالار کے بعد وزیر دفاع نے کہا کہ جو کچھ امیر عساکر نے کہا وہ اس کو من و عن اختیار اور اس کی تائید کرتے ہیں۔ تاہم خلیفہ کے اصرار پر کہ وہ خود بھی کچھ کہیں، وزیر دفاع نے کوئی بات کی جس میں محمود خان نامی کسی شخص اور بی آر ٹی کا ذکر آیا لیکن فنی خرابی کی وجہ سے وہ بات عوام سن نہ سکے۔ حاضرین نے بھی مزید وضاحت کی ضرورت نہ سمجھی۔ قاضی القضاة بھی وہاں موجود تھے، ان سے بھی خلیفہ پوچھا کیے۔ وہ چپ رہے، وہ ہنس دیے، منظور تھا پردہ کسی کا۔
شوریٰ کے تمام اہم ارکان کی بات مکمل ہوئی تو ہال میں موجود ہر شخص اس تاریخی درشن پر عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے سکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اسی دوران جشن مناتی ایک خاتون نے ہال میں آ کر خوشی سے میرا شانہ پکڑ کر جھنجوڑنا شروع کر دیا۔ میں اس اچانک افتاد سے پریشان تھا لیکن ہال میں موجود کسی فرد کا دھیان میری طرف نہیں تھا، سب سکرین کی طرف متوجہ تھے۔
کسی بلا کی طرح نازل ہوئی خاتون کی آواز میرے کانوں میں پڑی کہ اٹھو نو بج گئے ہیں، آفس نہیں جانا۔ ہڑبڑا کر بیڈ سے چھلانگ لگا کر اترا اور بھاگم دوڑ میں تیار ہو کر دفتر کو روانہ ہوا۔ گاڑی میں پٹرول کی سوئی خطرے کے نشان کو چھو رہی تھی۔ پہلے پٹرول پمپ پر رکا، چار ہزار دے کر ٹینکی میں کچھ پٹرول اور کچھ تبدیلی بھروائی۔ رستے میں اور پمپ پر کافی لوگ دیکھے، کوئی جشن نہیں منا رہا تھا۔ سکرین پر جشن مناتے لوگ کہیں چلے گئے تھے۔