منتخب نمائندے ضمیر کا سودا کیوں کرتے ہیں؟


سینیٹ میں اپوزیشن کے 64 ارکان تھے جبکہ حکومت کے 36 ارکان لیکن اس واضح اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ اپوزیشن کی اس شکست کے جہاں دیگر بہت سے عوامل ہیں میری نظر میں اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ سینیٹرز کی نا اہلیت بھی ہے جو پارٹی سے وفاداری اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے وقتی مفاد کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، منتخب نمائندوں کے ایسے اقدامات کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں جو میرٹ اور اہلیت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے محض پیسہ اور سرمایہ کی وجہ سے ایک نا اہل شخص کو سینیٹر بنا دیتی ہیں۔

اس سلسلہ میں 2015 میں میرے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے نے مجھے چونکا کر رکھ دیا، ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر کو کسی صحافی کی خدمات درکار ہیں آپ آ جائیں میں آپ کی ان سے میٹنگ کرا دیتا ہوں، مجھے اس وقت پارٹ ٹائم جاب کی ضرورت تھی سو میں ان کے بتائے ہوئے ایڈریس بلیوایریا اسلام آباد میں واقع ان کے آفس پہنچا۔

موصوف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا انٹرویو شروع کر دیا، میں نے اپنے صحافتی کیریئرسے متعلق انہیں آگاہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ مشرق کا پولیٹکل پیج میں ہی بناتا ہوں، انہوں نے جب یہ سنا توا انہیں اندازہ ہواکہ مجھے کے پی کے کی سیاست کی شد بد ہے تو موصوف کو مجھ میں دلچسپی ہوئی اور کہنے لگے کہ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے سینیٹر بنے ہوئے 2 سال کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن میں نے نا تو ابھی تک سینیٹ میں کوئی سوال کیا ہے اور نہ ہی کبھی کسی مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

آپ کا کام یہ ہو گا کہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر رہیں بالخصوص سینیٹ میں جن امورپر بحث چل رہی ہوتی ہے یا جو بل پیش کیے جا رہے ہوتے ہیں، ان میں سے کچھ سوالات تیار کرکے مجھے دیا کریں تاکہ میں وہ سوالات سینیٹ میں اٹھا سکوں۔ موصوف کے ساتھ ہمارے معامالات طے پانے کی کہانی طویل ہے، اسے میری بدقسمتی کہیں کہ ان کے ساتھ میری ڈیل کامیاب نہ ہو سکی یوں میں پیسوں سے بھی محروم ہوا اورسینیٹر صاحب کے بھی کسی کام نہ آ سکا۔ لیکن مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ کیا کوئی منتخب سینیٹر اس قدربھی نا اہل ہو سکتا ہے؟

سینیٹ کوایوان بالا کہا جاتا ہے جبکہ قومی اسمبلی کو ایوان زیریں۔ اس لحاظ سے سینیٹ انتہائی اہم ادارہ ہے، اسمبلی سے بل منظورہونے کے بعد ایوان بالا میں جاتے ہیں جن پر بحث ہوتی ہے اور پھر ان کی منظوری دی جاتی ہے جس سے 22 کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چند ایک سینیٹرز کو چھوڑ کر اکثریت ایسوں کی ہی ہے جو سالہاسال تک حکومت سے تنخواہ اورمراعات تو برابر لیتے ہیں لیکن کبھی کسی مسئلہ پر انہوں نے لب کشائی کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔

مذکورہ کہانی محض ایک کہانی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماج اور رائج سسٹم کا وہ کڑوا سچ ہے جسے اول تو بیان ہی نہیں کیا جاتا اور اگر بیان کر بھی دیا جائے تو اس کے سدباب کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا، آج اپوزیشن کی جماعتوں کو سینیٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جواپوزیشن کی جماعتوں کے لئے شاید بڑی بات نہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس ایک کے بعد دوسرا منصوبہ تیار ہوتا ہے لیکن کیا سیاسی جماعتیں اس پہلوپر بھی غور کریں گی کہ آخر ان کے منتخب ارکان کسی اہم معاملے پراپنی پارٹی سے وفاکرنے کی بجائے اپنے ضمیر کا سودا کیوں کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).