خلیفہ طائع باللہ اور عضدالدولہ کا ممکنہ جنم


4 اگست 974 ء ( 363 ہ) کو ایک ایسا خلیفہ تختِ خلافت پر بیٹھا کہ جس کے دور میں خلیفہ (سر براہ) کے مقابلہ میں وزیراعظم کے عہدہ کو خلیفہ سے زیادہ عزت و مقام دینے کی بنیاد پڑی۔ ابوالفضل عبدالکریم طائع باللہ بن الفضل مطیع باللہ 932 ء ( 317 ہ) کو پیدا ہوا۔ یہ سلطنتِ عباسیہ کا چوبیسواں خلیفہ تھا۔ 367 ہ میں شہر بغداد میں حملہ آور عضدالدولہ کی فتح و نصرت کا ڈنکا بجا، جس کے بعد خلیفہ طائع باللہ نے عضدالدولہ کو نائبِ سلطنت یعنی وزیرِاعظم مقرر کر دیا۔

حافظ جلال الدین سیوطیؒ اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھتے ہیں کہ 367 ہ میں طائع باللہ نے عضدالدولہ کو خلعت، جواہردار تاج اور کنگن عنایت کر کے شمشیر اُسکی گردن میں حمائل کی اور ساتھ ہی دو پرچم دیے جن میں سے ایک چاندی کا تھا جو اُمراء کو دیا جاتا تھا اور دوسرا سونے کا تھا جو ولیعہد کو دیا جاتا تھا، اور اسی کے ساتھ ایک فرمان بھی حوالہ کیا جس میں تحریر تھا کہ میرے بعد تم ہی ولیعہد ہو۔ جب یہ فرمان پڑھ کر سُنایا گیا تو لوگ انگشت بدندان رہ گئے کیونکہ ولیعہد ہمیشہ بیٹے یا کسی رشتہ دار کو بنایا جاتا تھا۔

368 ہ میں خلیفہ طائع باللہ کے حکم سے خطبہ میں خلیفہ کے بجائے وزیراعظم عضدالدولہ کا نام پڑھا جانے لگا، ابن جوزی نے کہا کہ اس سے پہلے کبھی بھی یہ دستور نہیں رہا تھا۔ ایک روز طائع نے دربار سجوایا اور عضدالدولہ کو بلوا کر اپنی تمام مملکت اور اُمورِ خلافت اس کے تصرف میں دے دیں اس کے بعد طائع باللہ نے سب کے سامنے اپنی خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا اور اپنے محل میں چلا گیا۔

حافظ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ طائع باللہ وہ پہلا خلیفہ ہے جس کے زمانہ میں اُمورِ خلافت میں اسی قسم کی بیحد کمزوریاں پیدا کی گئیں، جس کے بعد یہ تک دیکھا گیا کہ ایک خلیفہ وزیراعظم کے استقبال کے لئے دربانوں کی مانند آگے آگے گھوڑے پر سوار چل رہا تھا اور تمام شان و شوکت اور ہیبت و عزت وزیراعظم کی تھی۔

اپنے ماتحت وزیراعظم کی اطاعت گزاری اختیار کرلینے والا یہ خلیفہ طائع باللہ 3 اگست 1003 ء بمطابق شبِ عیدالفطر 393 ہ میں انتقال کر گیا اور اسے رصافہ میں دفن کیا گیا۔ تاریخ ملت میں الفخری کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ طائع باللہ کی جسمانی طاقت بہت تھی مگر دماغی حالت کمزور تھی جس کا نتیجہ آگے چل کر اس کی معزولی کی صورت میں رونما ہوا۔

خلیفہ طائع کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد اگر ہم صدرِ پاکستان کے عہدہ کی جانب توجہ کریں تو یہاں بھی صدرِ مملکت کا مستقبل خلیفہ طائع کی مانند دکھائی دیتا ہے مثلاً اٹھارہویں ترمیم کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار صدرِ مملکت ہی کے پاس ہے لیکن صدرِ مملکت کو یہ اختیار صرف وزیراعظم دے سکتا ہے، مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کرنے کی ذمہ داری صدرِ مملکت کی ہی ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد وہ یہ کام وزیرِاعظم کے مشورے کے بغیر نہیں کر سکتے۔

قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات و عالمی تعلقات میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عائشہ یونس نے پاکستان میں صدر کے عہدہ کی اہمیت بتاتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس عہدہ سے عالمی سطح پر شناخت واضح کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ ہی کے مطابق ترقی یافتہ ممالک بشمول برطانیہ میں اب یہ بحث جاری ہے کہ ایوانِ صدر کے اخراجات میں کمی لائی جائے اور اس کے لئے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جبکہ بی بی سی اردو پر ایک آرٹیکل میں 4 ستمبر 2018 ء کو بتایا گیا تھا کہ شاہ خاور سمجھتے ہیں کہ اخراجات میں کمی کے اقدامات پاکستانی ایوانِ صدر پر بھی لاگو ہونے چاہییں۔

اب یہاں سے ہی خدشات جنم لے رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان صاحب جو سادگی اپنا کر ملکی خزانہ کو نقصان سے بچانے کی راہ پر گامزن ہیں کہیں یہ سادگی اور کفایت شعاری کا سیلاب صدارتی عہدہ کو مستقبل میں بہا تو نہیں لے جائے گا، یا اس جدید صدی میں کوئی عضدالدولہ ترقی کر کے طائع باللہ کی مسند و عہدہ پر تو تسلط اختیار نہیں کر لے گا؟ کیونکہ سابقہ اور موجودہ صدر کی صرف مخصوص مواقعوں پہ زیارت پر پاکستانی عوام پہلے ہی تشویش میں مبتلا دکھائی دیتی ہے اگر مستقبل قریب میں ایسا کوئی اقدام لیا گیا جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں تو شاید حالات اس قسم کی تبدیلی کے لئے سازگار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).