کیا ریاست ایک وحشی درندہ ہے


ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے عمرانی حقوق کی پاسداری نہیں کی، مگر اس کی کیا وجہ ہے۔ کیا ریاست نے ہمیں وہ چیزیں فراہم کی ہیں، جو ایک ریاست اپنے باسیوں کو فراہم کرتی ہے۔ آج اگر مفلسی ہمارے گھروں میں ناچتی ہے۔ آج اگر ماؤں بہنوں کی عصمتیں محفوظ نہیں، آج اگر مہنگائی ہمارے اوپر مسلط ہے۔ نون م راشد کے حسن کوزہ گر کے لیے تو ایک رات ہی کہر با تھی، لیکن افسوس صد افسوس ہمارے لیے تو تمام راتیں ہی کہر با ہیں۔ ہم روز مرتے ہیں۔ کیا ریاست کا حق نہیں کہ وہ ہمیں ہماری بنیادی سہولتیں فراہم کرے؟

اگر ریاست کی درندگی کی بات کریں، تو داستانیں زیادہ اور وقت کم ہے۔ ریاست نے جس بری طر ح سے اپنے باسیوں کو عبر ت کا نشانہ بنایا، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ ہم جمہوری ملک ہیں مگر اس جمہوریت میں ہمیشہ ابن الوقت اور نظریہِ ضرورت کا سہارا لینے والے ابھر کرآئے، اگر ریاست کی ہولناکی کو قلم کی حرمت کا بے باک انداز بنایا جائے تو نہ جانے کتنے سوال صحافت پر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ صحافت کا سفینہ ویسے بھنور ہی میں ہے۔

سب سے پہلے ایوبی فرعونیت کی بات کرتے ہیں۔ ایوبی فرعونیت میں جس طرح ریاست نے کراچی میں مہاجروں کے ساتھ ظلم کیا اور جس نے بعد ازاں ایم کیو ایم کو جنم دیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جسٹس منیر جیسے نابغے جنہوں نے نظریہ ضرورت کا سہارا لیا، جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار تھے، ملکِ عزیز کی تاریخ پر چرکے لگائے۔ انصا ف کا قتلِ عام کیا، درباری اور خوشامدی ہونے کی داستانیں رقم کیں۔ ریاست نے ضیا الحق کے عہدِ خون آشام میں جس طرح ایم آر ڈی کے کارکنوں کا لہو پیا۔

عورتوں کو بیوہ کیا، بچوں کو یتیم کیا اور سفاکیت رقم کی ریاست اُس میں ایک ڈراؤنا خواب بن کر سامنے آئی۔ ملک ِ عزیز کی سیاہ ترین راتوں کا اختتام ضیا الحق کی موت پر ہوا۔ ان تیرہ شبوں میں بھی نظریہ ضرورت کا طوطی بولتا رہا۔ ان اندھیری راتوں میں بھی اپنے ذاتی مفاد کو مقدم رکھنے والے جج عدالتوں کی زینت بنے رہے، جنہوں نے انصاف کی ایک طوائف کی سی حالت کر دی۔ مگر قدرت کا دستور ہے کہ جہاں فرعون پیدا ہوتا ہے وہاں موسیٰ ضرور جنم لیتا ہے، جس نے فرعون کی ضلالت کو عیاں کرنا ہوتا ہے۔

ضیا الحق کے دور میں اہلِ ادب نے جالب جیسی شمشیر بے نیام اور فراز جیسے ہیرے پیدا کیے، جنہوں نے ادب میں ایسی نظمیں پیش کیں، جن میں آمروں نے اپنا مکروہ چہرہ دیکھا۔ آگے چلتے جائیں تو ریاست جس طرح مشرف دور میں اکبر بگٹی کے خون کی پیاسی لگی، وہاں بھی ریاست نے اپنا وحشت زدہ چہرہ پیش کیا۔ آمروں کے دور میں ریاست اپنا کرتب دکھاتی رہی اور کیا خوب دکھایا، مگر شومئی قسمت ریاست نے جس طرح ایک جمہوری دور میں ماڈل ٹاؤن میں سولہ لوگوں کے خون کا تقدس پامال کیا، وہاں ظلم پہ نوحہ گری کی گئی۔

ماڈل ٹاؤن کے اُن پرآشوب لمحات میں ماتم کناں چہرے، ریاست سے دھاڑیں مار مار کے انصاف کی بھیک مانگ رہے تھے۔ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے مگر ہماری ریاست کیسی ماں ہے، جسے کسی کی آہ و بکا کسی کی گریہ زاری سنائی نہیں دیتی۔ ریاست تو آج بھی قتل عام کر رہی ہے۔ عصرِ حاضر میں جس طرح بلوچستان کی ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کی جا رہی ہے، کیا جلیلہ حیدر کے الفاظ ایوانوں تک نہیں پہنچتے کہ کوئٹہ میں اتنے بکرے نہیں ذبح ہوتے، جتنے ہزارہ ذبح ہوتے ہیں؟ کیا ایوان کی آنکھیں، ایوان کے کان نہیں ہیں؟ ہیں تو کیا زبان سے محروم ہے؟

یہ کیسی ریاست ہے جس کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ یہ کیسی ریاست ہے جو گونگی ہے، جس کو چیخ پکار سنائی نہیں دیتی۔ اگر ریاست واقعی ہی ماں ہے تو یہ بے بس انسانو ں کو اپنی آغوش میں کیوں نہیں لیتی۔ لوگوں کے ذبح ہونے پر سوگ کیوں نہیں کرتی؟ زیادہ کچھ نہیں کر سکتی تو شرم سار ہی ہو جائے۔ جہاں سیاہ راتیں کم اور لاشیں زیادہ ہوں، جہاں ریاست وحشی درندہ ہو، وہاں امن کیسے ہو سکتا ہے۔ اب ضرورت فقط بھائی چارے کا تخم ریاست کی بنیادوں میں بونے کی ہے۔

اب اس ملک کو اگر گرداب سے نکالنا ہے، تو یکجہتی کی ضرورت ہے۔ ریاست کو حقیقی ماں کا روپ دھارنا ہو گا۔ ہمیں عمرانی حقوق کی پاسداری کرنی ہو گی۔ ہمیں بھی چاہیے ہم ریاست کو ماں کا درجہ دیں، ریاست کے لیے اپنے جان ومال کی پروا کیے بغیر ریاست کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور ریاست ہمیں علم، انصاف، صحت اور تحفظ جیسی سہولیا ت فراہم کرے۔ ہمیں برداشت کا نور عطا کرے۔ ہمیں شعور کا تاج دے۔ ہمیں جہالت سے نکالے۔ مذہبی، لسانی اور اخلاقی بنیادوں پر نفرتوں کو ختم کرے، تب جا کر ہم وہ پاکستان بنا سکیں گے، جو اقبال کے پیغام اور قائد کے ایمان و ایقان کی مرہونِ منت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).