مغرب اور محبت


اکثر اوقات یہ سننے کو ملتا ہے کہ مغربی لوگ کے باہمی تعلقات عارضی ہوتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، ماں بیٹی یا باپ بیٹے میں محبت کی وہ چاشنی نہیں پائی جاتی ہے جو ہمارے معاشرے میں دیکھی جاتی ہے۔ پھر بہت سے لوگوں کے رائے معلوم کریں تو اس طرح کے بے شمار عجیب و غریب خیالات سننے کو ملتے ہیں جو میڈیا پر بھی بتلائے اور دیکھے جاتے ہیں۔ پھر فلم بینی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔

اول تو ہمارے معاشرے میں جذبات کی پریکٹس عقل کے بہت زیادہ ہے۔ عام فہم میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہاں جذبات عقل پر حاوی ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ جذباتی فیصلے اتنا طویل عرصہ نہیں رکھتے جتنا عقلی طور پر کیے گئے فیصلے رکھتے ہیں۔ پھر نتائج بھی بہت معنے رکھتے ہیں۔ عقل کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے وقتی طور پر ممکن ہے نہایت ہی غصہ دلائیں یا پائیدار نہ لگیں لیکن وہ فیصلے مثبت نتائج کا سبب بنتے ہیں۔ بیرون ممالک میں عقل کی پریکٹس قدرے زیادہ ہے۔

ہر عام انسان کوئی بھی نیا رشتہ قائم کرنے سے پہلے عقل کو ترجیح دیتا ہے اور یوں بچپن سے ہی عارضی جذبات پر وہ قابو پانا شروع کردیتے ہیں۔ ہم فلموں، شوز یا پورن فلمز دیکھ کر حتمی رائے باندھ لیتے ہیں اور لاشعور طور یہ مان لیتے ہیں کہ ہم ہی تعلقات نبھانے میں اول و آخر ہیں۔ اور اس کا منفی اثر ہمارے معاشرے پر یہ پڑتا ہے کہ ہم کھوکھلی انا کا سہارا لے کر مغربی لوگوں کو حقارت سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں، جس کا ان کو گمان تک نہیں ہوتا۔

آپ کیسے ایسے لوگوں پر یہ بہتان لگاسکتے ہیں کہ ان میں محبت کی چاشنی نہیں ہے جبکہ ان کا جانوروں سے سلوک کیسا ہے یہ ہمارا ہر بچہ تک جانتا ہے۔ میرا ایک دوست پچھلے دنوں نیویارک سے بتارہا تھا کہ گذشتہ شب وہ اپنے دو لیبرا کتوں کو معمول کے مطابق پارک گھمانے لے گیا۔ لیکن آج اسے کہیں جانا تھا سو وقت سے پہلے پارک سے نکلنا مناسب سمجھا لیکن جونہی میں ان کو کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہا فورا قریبی لوگ مجھے تنقید کرنے لگے اور سگنل کے پاس کھڑے دو پولیس والے میری طرف آئے اور مجھے جرمانہ کیا۔

اب جن ممالک میں جانور کے ساتھ ایسا لگاؤ تو جب ہم آواز اور ہم زبان افراد کے ساتھ ان کا تعلق بنتا ہوگا تو وہ کس قدر سراہتے ہوں گے اور محبت کا دائمی حق نبھاتے ہوں گے۔

ایک اور نظریہ جو نسل نو میں دیکھا جارہا ہے وہ یہ کہ پورن کا کثیر استعمال ان کی سوچ پر حاوی ہوچکا ہے۔ پورن ویبسائیٹ پر اب مواد مختلف کیٹاگریز میں دستیاب میں ہے۔ چونکہ ہر کوئی مختلف ایڈوینچر کا شوقین ہے تو عادت ہوجانے پر وہ یہ مان چکے ہیں کہ مغربی ممالک میں محض فحاشی ہے اور ہر صنف نازک ان کو وحشیہ معلوم ہوتی ہے۔ ہماری کوتاہی اور فکری بگاڑ کا سبب یہی عمل ہے کہ ہم بنا حقایق پرکھے، بنا تجربہ کیے سُنی سُنائی باتوں اور بناوٹی دنیا کی رائے کو حتمی طور پر مان لیتے ہیں جبکہ قریبی دوست جرمن سے ہوتے ہوئے آسٹریلیا گھومتے ہوئے بتلارہے تھے اور باقاعدہ تصاویر اپڈیٹ کررہے تھے کہ میں بذات پاکستانی یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بہت خوبصورت معاشرہ ہے اورانسانی فطرت کو اس قدر خوبصورت سے سراہا جاتا ہے کہ گلی بازار میں گھومنے والا ہر فرد نہات ہی خوش معلوم ہوتا ہے۔

خوش فہمی اور غلط فہمی کا موازنہ کرنا اول شرط ہے اور یہ پرکھنا ضروری ہے کہ کس نے اسی دنیا میں جنت پا لی ہے۔

۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).