بٹر فلائی ایفیکٹ: معمولی جنبش سے غیر معمولی طوفان


سن 1982 میں امریکی ریاضی دان اور ماہر ماحولیات ایڈورڈ لورینٹز نے ایک نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق ایک تتلی اگر برازیل میں، اپنے پنکھ پھڑپھڑائے تو اس سے ٹیکساس میں ایک بھیانک طوفان آ سکتا ہے۔ اس نظریے کو انہوں نے بٹر فلائی ایفیکٹ (Butterfly Effect) کا نام دیا تھا۔

ایڈورڈ کا اپنے نظریے میں کہنا ہے، کہ ہر جاندار چیز سے کوئی بھی کام اتفاقاً نہیں ہوتا بلکہ یہ ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ ہوتا ہے جس سے شروع ہونے والا عمل ایک کڑی سے جڑ کر، دوسری کڑی اور اسی طرح جڑتے جڑتے کہیں دور اپنے اختتام کو پنہچتا ہے۔

بٹر فلائی ایفیکٹ کو چند امثال کی مدد سے درست ثابت کیا ہے، لیکن آپ احباب اپنے دلائل سے اس کو رد بھی کر سکتے ہیں۔

بھارت کے مہاتما گاندھی ساؤتھ افریقہ کے شہر ڈربن سے پریٹوریا جانے کے لئے اول درجے کا ٹرین کا ٹکٹ خریدتے ہیں، لیکن دورانِ سفر ٹرین کا گورا عملہ، انہیں بھارتی ہونے پر ذلیل کر کے ٹرین سے باہر پھینک دینا ہے۔ اس پر موہن داس گاندھی شدید غم و غصے میں بھارت لوٹتے ہیں اور گوروں سے بدلہ لینے، انہیں اپنے ملک سے باہر نکالنے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے سر توڑ محنت شروع کرتے ہیں۔ چند عرصے بعد دنیا نے دیکھا کہ بھارت بلکہ موہن داس گاندھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔

چین کے ایک حکمران نے چین سے چڑیا ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے نے لاکھوں جانیں لیں۔ آپ کے ذہن میں سوال آیا ہو گا، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ تو دیکھیں، چڑیا فصلوں سے اک خاص قسم کا کیڑا چگتی ہے، جو فصلوں کو نقصان پنہچاتا ہے۔ چڑیوں کے نہ ہونے سے، اُن کیڑوں نے فصلیں تباہ کر دیں، جس سے چین قحط سالی کا شکار ہوا۔ سوچیں اگر وہ چڑیا نہ ختم کرتا تو اتنی اموات ہوتیں؟

اب اس مثال میں ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ کہاں مداخلت کر رہا ہے؟ سوچیں اگر ٹرین کا گورا عملہ موہن داس گاندھی کو اس دن ٹرین سے نہ نکالتا تو کیا بھارت آج اک آزاد ریاست ہوتا؟ کبھی نہ ہوتا۔

اسی طرح مشہورِ زمانہ ’’ٹائٹینک‘‘ بحری جہاز کا قصہ تو آپ کو یقیناً معلوم ہو گا۔ لیکن شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہاں بھی ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ کی مداخلت ہے۔ 15 اپریل 1912 میں برطانوی صحافی سنم میلونی اپنی 30 سالہ ریسرچ کے بعد ٹائٹینک جہاز کے ڈوبنے کی اصل وجہ کھوجنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

ہم نے شروع سے ہی سنا، پڑھا اور دیکھا کہ ٹائٹینک جہاز برف کے تودے سے ٹکرانے کے بعد ڈوبا تھا، لیکن سنم میلونی لکھتے ہیں کہ جہاز کی روانگی کے ٹھیک ایک ہفتے بعد جہاز کے نچلے حصے میں تکنیکی خرابی کے باعث آگ لگی تھی، جس نے نچلے حصے کے ڈھانچے کو شدید نقصان پنہچایا اور بعد میں وہی حصہ برف کے تودے سے ٹکرایا تھا۔ اب یہاں حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ جہاز میں 3500 شراب کی بوتلیں، جب کہ 8000 سگار موجود تھے، لیکن کوئی دوربین نہیں تھی، جس سے دورانِ سفر آنے والی مصیبتوں کو دیکھا جا سکتا۔ سنم میلونی مزید لکھتے ہیں کہ بحری جہازوں میں خاص استعمال ہونے والی دوربین جہاز کے خاص کمرے/ الماری میں محفوظ تھیں، جس کی چابیاں جہاز کے سیکنڈ افسر ڈیوڈ بلیئر کے پاس تھیں اور روانگی سے ٹھیک ایک دن پہلے انہیں جہاز سے معطل کر دیا گیا تھا۔ ڈیویڈ بلیئر جاتے جاتے چابیاں دینا بھول گئے تھے اور عملے کو بھی اس کا علم تین دن بعد ہوا، جب ٹائٹینک سمندر کے بیچ میں تھا۔

سوچیں اگر ڈیوڈ بلیئر کو نکالا نہ جاتا، وہ جہاز میں موجود ہوتے، تو اُن خاص دوربینوں کی مدد سے برفانی تودے کو دیکھا جا سکتا تھا، جس سے سیکڑوں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔

اسی طرح ہٹلر اگر پہلی جنگی عظیم کے دوران میں فرانس میں گھائل، برطانوی فوجی ہنری ٹینڈی کو رحم کھا کر نہ بخشتا، تو دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ نہ اتارتا۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں آپ کے آس پاس موجود ہیں، جسے آپ ایڈورڈ کے نظریے ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ کی رُو سے دیکھ سکتے ہیں۔ بٹر فلائی ایفیکٹ کے نقصانات نہیں بلکہ فائدے بھی بہت ہیں، جس کی بہترین مثال قاسم علی شاہ ہیں۔ سوچیں، اگر قاسم علی شاہ کے دوست انہیں واصف علی واصف کی کتاب نہ دیتے، تو آج قاسم علی شاہ وہاں ہوتے جس مقام پر وہ کھڑے ہیں؟

آنکھوں دیکھا ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ سوچیں۔ اگر ’’ہم سب سائٹ‘‘ ہی نہ ہوتی تو کیا آج آپ کو وہ ساری معلومات حاصل ہوتیں، جو یہاں مختلف علمی شخصیات کے توسط سے آپ نے پڑھی ہیں؟ فیس بک نہ ہوتی تو کیا آپ کو معلوم ہوتا، کوئی عدنان خان کاکڑ ہیں، ظفر عمران ہیں، ملک جہانگیر اقبال ہیں، قاضی حارث ہیں، عارف خٹک ہیں؟ یقیناً آپ کو نہ معلوم ہوتا۔

ان سب مثالوں کی رُو سے وا ضح ہے، کہ ایک چھوٹے سے شہر میں کیا جانے والا عمل، کسی دوسرے خطے کی آبادی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس نظریے پر مختلف فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ ایک تو ’’بٹر فلائی ایفیکٹ‘‘ کے نام ہی سے ہے۔ وقت ملے تو دیکھیے۔ آپ اسے ایڈورڈ کا نظریہ سمجھیں۔ میں اللہ کی حکمت سمجھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).