کشمیر پر نحوست کے بادل!


پچھلے کچھ دنوں سے مقبوضہ وادی میں بے چینی کی فضا پائی جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر حالات بگڑ رہے ہیں۔

کارگل کی جنگ کو 20 سال گزرنے کے بعد بھی کئی سوال جواب طلب ہیں لیکن ان سوالوں کے جواب تاریخ میں ہمیشہ مبہم رہے ہیں سو رہیں گے۔

کارگل کی جنگ کے بارے میں جو ’سازشی تھیوری‘ ہم نے سنی اس کے مطابق یہ ایک کنٹرولڈ جنگ تھی جس کی ثالثی تب بھی امریکہ نے کرنا تھی اور اس کے نتیجے میں لیہ، لداخ اور جموں انڈیا کے حصے میں آنے تھے جبکہ باقی ماندہ کشمیر پاکستان کے ساتھ ایک خود مختار یا نیم خود مختار ریاست کی طرح آزاد رہنا تھا۔

کہنے والوں نے کہا کہ نواز شریف کی وجہ سے نسخہ کچا رہ گیا جس کی سزا نواز شریف نے تب بھی بھگتی اور اب بھی بھگت رہے ہیں۔ چونکہ یہ ایک ’سازشی تھیوری‘ تھی اس لیے اس کے راوی اور ذرائع سب نا معلوم اور غیر معتبر ٹھہرے۔

کشمیر کا مسئلہ خطے میں ایک ناسور کی طرح موجود رہا۔ لگتا تو یوں ہے کہ اس معاملے ہی کے باعث پاکستان اور انڈیا ترقی کے راستے میں بہت پیچھے رہ گئے اور سیاست کے اس اندھے موڑ ہی نے دونوں ممالک کو بار بار ایک دوسرے پر فوج کشی کرنے اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند تحریکوں کی سر پرستی پر مجبور کیے رکھا۔

دونوں ملکوں کے عوام ایک جیسے مسائل سے نبردآزما ہیں لیکن سیاستدان انھیں کشمیر کی گولی کھلا کے ہر بار سلا دیتے ہیں۔ خیر وادی میں ہونے والی پر اسرار نقل و حرکت کے بارے میں کم از کم مجھے کوئی خوش فہمی نہیں۔

انڈین کمشیر

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے بعد سے صورت حال خاصی شکل بدل چکی ہے اگر امریکہ کشمیر پر ثالثی کو تیار ہے اور اس کے بدلے پاکستان سے کسی طرح کا تعاون چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے۔

مسئلہ کشمیر تو حل نہیں ہو گا البتہ لائن آف کنٹرول کے آر پار حالات بہت بری شکل اختیار کر جائیں گے کیونکہ اگر یہ معاملہ کسی بھی صورت حل ہو گیا تو پاکستان، انڈیا کے گلے پڑا ایک بہت بڑا طوق اتر جائے گا۔ یہ طوق جو دونوں ملکوں کے عوام کے گلے میں پڑا ہے اور ان کے منہ کے نوالے چھین کر جنگ کی آگ میں جھونک رہا ہے۔

ہاں وادی میں جتنا ہنگامہ ہو گا ثالث کے لیے دونوں ملکوں کو ایران کے خلاف خریدنے کے امکانات روشن سے روشن ہوتے چلے جائیں گے۔

جن لوگوں کو اندرا گاندھی کے زمانے میں کیا جانے والا ’گولڈن ٹمپل کا محاصرہ‘ یاد ہے شاید وہ آج کے حالات کسی حد تک سمجھ رہے ہوں گے۔

خالصتان کی تحریک کسی بھی طرح کشمیر میں اٹھنے والی تحریکوں سے کم نہ تھی مگر اسے جس بے رحمی سے کچلا گیا اور جس طرح اصلاحات کے نام پر پنجابی سکھوں کی کمر توڑی گئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

انڈین کشمیر

انڈیا کی عسکری اور سیاسی تاریخ کے لیے چاہے وہ ایک روشن مثال ہو گی لیکن اس انسانی المیے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

امرتسر میں اسی طرح کا قتل عام عین اسی موسم میں جلیانوالہ باغ میں کولونیل فوج نے کیا تو آج تک اس پر واویلا کیا جاتا ہے لیکن گولڈن ٹمپل میں مارے جانے والوں کا حساب کوئی نہیں مانگ سکتا۔

جس طرح امرتسر میں بیساکھی کا موسم ہی کسی بھی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے مناسب سمجھا جاتا رہا کچھ اسی طرح کشمیر میں بھی موسم بدل رہا ہے۔ شدید گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ برفباری سے پہلے کشمیر کی وادی میں ایک نسبتا خشک موسم آئے گا۔ یہ موسم فوج کشی یا کسی بھی طرح کے آپریشن کے لیے موزوں ترین ہوتا ہے۔

اگر مودی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ وادی میں امرتسر کی طرز پر آپریشن کر کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے جائیں گے تو یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔

کشمیر کا جغرافیہ پنجاب سے مختلف ہے۔ یہ تحریک بہت حد تک کشمیریوں کے اندر سے ابھری ہے۔ ان کی چار نسلوں نے اس تحریک کے لیے قربانی دی ہے۔

خالصتان کی تحریک اور جاٹوں کا مزاج کشمیر کی تحریک اور کشمیریوں کے مزاج سے بہت فرق ہے۔ مزید یہ کہ لداخ کی سرحد چین سے ملتی ہے۔ اس سرحد پر چین اور انڈیا کے درمیان ’لائن آف ایکچوئیل کنٹرول‘ موجود ہے۔

سکیورٹی

یاد رہے کہ لداخ بلتستان کے علاقے سے متصل ہے۔ پاکستان کچھ برس پہلے گلگت بلتستان کو خیبر پختونخوا صوبے سے الگ ایک صوبہ بنا چکا ہے اور یہ صوبہ آزاد کشمیر میں بھی شامل نہیں۔

افغانستان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات سنہ 1999 کی نسبت آج خاصے فرق ہیں مگر بہر حال یہ پنجاب نہیں کشمیر ہے۔

بدلتے ہوئے حالات میں کشمیر ایک بار پھر اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایران، امریکہ تعلقات، پاکستان اور امریکہ کی تجدید تعلقات، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال، انڈیا کی موجودہ حکومت کی پالیسیاں یہ سب مل کر مستقبل کی ایک بہت واضح تصویر بنا رہی ہیں جس میں کون سیاسی اور مالی لحاظ سے کیا پاتا ہے وہ تو ایک طرف ہے لیکن انسانی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑے المیے کی تصویر ہے۔

برفباری سے پہلے وادی میں کچھ ہو نے جا رہا ہے برف پگھلنے تک پوسٹ آپریشن اقدامات کر لیے جائیں گے اور موسم بہار تک انڈیا کے سر سے یہ کانٹا ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق جموں کو آزاد حیثیت دی جائے گی، جبکہ کشمیر، لیہ اور لداخ کو یو پی میں شامل کر دیا جائے گا۔

کچھ ایسا ہی خواب کارگل کی جنگ سے پہلے دیکھا گیا تھا۔ ہوا یہ کہ دونوں طرف کے فوجیوں کی عمروں میں 20 سال کا اضافہ ہوا اور عقل جہاں تھی وہیں رہی یعنی ٹخنوں میں۔

تحریک حریت کے سربراہ علی گیلانی صاحب کی ایک مبینہ ٹوئٹ بھی نظر سے گزر رہی ہے جس میں وہ کشمیری مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی کے خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں۔

گدھ اور چیلیں ایک بار پھر ہمالیہ کی چوٹیوں پہ نمودار ہو رہے ہیں، بارود کی فصل پک چکی ہے، کسی بھی لمحے کٹائی کا آغاز ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).