آر لینڈو میں زندگی، اور ایک موت


آرلینڈو کو مگرمچھوں کا شہر بھی کہا جا سکتا ہے جہاں اگر مگر مچھ ہیں تو وہ صرف مقامی لوگوں کو ہی نظر آتے ہیں۔ اس شہر میں جھیلیں، جنگل اور ہریاول بہت ہے اور انسان کم کم ہیں۔ ان جھیلوں میں مبینہ طور پر مگرمچھ پائے جاتے ہیں۔ اگر ہیں تو جانے کیوں وہ مجھے اپنا رخ زیبا دکھانے سے جھجکتے ہیں۔ پچھلے پندرہ برس میں مجھے تو آرلینڈو میں ایک مگرمچھ بھی نظر نہیں آیا۔ بہت خواہش تھی کہ کم از کم ایک مگرمچھ ہی نظر آ جائے۔

دیکھیں تو سہی کہ ان کے آنسو کیسے ہوتے ہیں۔ صرف ایک بار مجھے شک سا ہوا تھا کہ ایک جھیل کی سطح پر سیاہ رنگ کی کوئی شے ساکت ہے۔ وہ مگرمچھ ہو سکتا تھا قریب پہنچنے پر وہ لکڑی کا کوئی سالخوردہ ٹکڑا تھا۔ البتہ ایک بار کچھ گمان سا ہوا تھا کہ جھیل میں ابھرتے ہوئے پتھر پر غالباً ایک مگرمچھنی بیٹھی دھوپ سینک رہی ہے۔ آرلینڈو فلوریڈا میں ہے اور فلوریڈا اورنج کاؤنٹی کہلاتا ہے۔ یہاں تک کہ یہاں کی کاروں کی نمبر پلیٹوں پر اورنج یا مالٹے کی تصویر ثبت ہوتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ کسی بھی علاقے میں کثرت سے پائے جانے والوں پھلوں اور فصلوں کی تشہیر کے لئے یہ بہترین ذریعہ ہے۔ اگر اسے پاکستان میں بھی رائج کیا جائے تو آپ تصور کیجیے کہ کاروں کی نمبر پلیٹوں پر کون سے پھل اور فصلیں بہار دکھا رہی ہوں گی۔ مثلاً سرگودھا کے کینوں، دیر کے مالٹے، سوات کے جاپانی پھل۔ گکھڑ کے خربوزے۔ ملتان کے آم، چمن کے انگور، ڈی جی خان کی کھجوریں، ہری پور کے لوکاٹ، لاہور کی سٹرابیریز۔

گلگت کی خوبانیاں، نگر کی چیریاں وغیرہ۔ ویسے آپس کی بات ہے مگرمچھوں کی مانند حرام ہے اگر میں نے فلوریڈا میں کہیں بھی مالٹوں کے باغ دیکھے ہوں۔ کہیں نہ کہیں تو ہوں گے۔ ابھی حال ہی میں آرلینڈو کی وجہ شہرت میں ریچھوں کا اضافہ ہو گیاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں اب ریچھ بھی پائے جاتے ہیں کیوں پائے جاتے ہیں کہاں پائے جاتے ہیں اس کی خبر نہیں لیکن عینی نے ثبوت کے طور پر ایک مبینہ ریچھ کی تصویر پیش کی ہے جو اس کے گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

آرلینڈو میں میرے دیرینہ دوست ابوالفضل انصاری نے ایک ٹی بون سٹیک کھاتے اور مجھے کھلاتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے بھی اپنی آنکھوں سے ایک عدد ریچھ کو شاہراہ کے کناروں پر ٹہلتے دیکھا تھا۔ جیسے دنیا کے بلند ترین میدان دیوسائی میں اگر کوئی بیزار سا ریچھ ٹیلے پر آ بیٹھتا ہے تو نیچے نشیب میں سکردو جانے والی جیپوں کے مسافر اسے دیکھ لیتے ہیں۔ فرض کیجیے ایک سو مسافر اس تنہا ریچھ کو دیکھتے ہیں تو سکردو پہنچ کر ہر مسافر دس دوستوں اور رشتے داروں کو بتاتا ہے کہ میں نے آج ریچھ دیکھا ہے تو اگلے روز ہزاروں لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ریچھ دیکھے ہیں۔

ایک ریچھ کے ہزاروں ریچھ ہو جاتے ہیں جو پورے دیوسائی میں گھومتے پھرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آرلینڈو کے کسی شخص نے بھی کوئی ریچھ تماشا دیکھ لیا اور اب یہاں ہر جانب ریچھ ہی ریچھ ہو گئے ہیں اب ڈھونڈو انہیں چراغِ رُخِ زیبا لے کر۔ جیسا کہ نامعلوم زمانوں سے ہمارا وتیرہ رہا ہے، ہم دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں بہ شرط صحت صبح سویرے جو گرز پہنتے ہیں اور سیر کے لئے نکل جاتے ہیں۔ لاہور میں ماڈل ٹاؤن پارک میں سویریں گزرتی تھیں اور یہاں آرلینڈو کا بیشتر حصہ ایک وسیع پارک کی شکل میں ہرا بھرا ہوتا ہے۔

خاص طور پر وہ کا یہ علاقہ جہاں ہم رہائش پذیر ہیں۔ گھنے اور گتھے ہوئے جنگل جن میں سے ہوا جانے کیسے گزرتی ہے۔ دلدل کے علاقوں میں عجیب پودے اور بیلیں جو پانیوں پر تیرتی ہیں اور ان جنگلوں کے درمیان بے شمار گالف کورسوں کے گھاس بھرے میدان اور ٹیلے۔ بیشتر گھروں کے پچھواڑے جھیلوں یا گالف کورسوں پر کھلتے ہیں۔ ان گالف کورسوں کے کناروں پر گالف کارٹس کے لئے پگڈنڈیاں بل کھاتی ہیں اور ہم ان پر ایک مکمل تنہائی اور سناٹے اور سویر کی نم ٹھنڈک میں چلتے جاتے ہیں۔

ان کے کناروں پر جو وسیع اور خوش نظر رہائش گاہیں پہلو بہ پہلو چلی جاتی ہیں میں نے آج تک وہاں کسی رہائشی کو نہیں دیکھا۔ البتہ یہاں پرندوں کی چہکار لاہور کے باغوں کی نسبت بہت کم ہے۔ جب ہم اس بڑی سرسبز تنہائی سے نکل کر کسی سڑک کے فٹ پاتھ پر چلنے لگتے ہیں تو وہاں اکا دکا لوگوں سے سامنا ہو جاتا ہے۔ ان میں ایک ہمارے ہمسائے مسٹر سوپ ہیں جو کسی ٹیلی ویژن چینل کے مالک ہیں۔ نہائت لحیم شحیم امریکی ہیں اور خود نہیں کتّوں کو سیر کروا رہے ہوتے ہیں۔

ہمیشہ بتاتے ہیں کہ یہ نسواری رنگ والا کتا بہت کمینہ ہے اس سے دور رہئے البتہ یہ جو بلیک اینڈ وائٹ کتا ہے نہائت ہی انسان دوست ہے آپ اسے پیار کر سکتے ہیں اور مجھے اگلے روز بھول جاتا ہے کہ کون سا کتا کمینہ ہے اور کون سا شریف النفس ہے۔ اس لئے ان دونوں سے پرے پرے رہتا ہوں۔ کیا پتہ جیسے زندگی میں ہوتا آیا ہے جسے میں انسان دوست سمجھ لوں وہ کمینہ نکل آئے۔ اگر کوئی دل پذیر خاتون جوگنگ کرتی چلی آئے اور میں اس کے ”مارننگ“ کہنے پر جواب میں ”گڈ مارننگ“ کہہ دوں تو مونا کچھ خفا ہو جاتی ہے کہ اس نے تو صرف مارننگ کہا تھا تو جواب میں ضرور گڈ مارننگ کہنا تھا اور وہ بھی نہائت پرمسرت ہو کے۔

بابا فرید نے جب کہا تھا کہ ”دُکھ سبھائے جگ تو کتنی بڑی سچائی بیان کی تھی کہ دُکھ صرف ہمارے ہاں ہی تو نہیں ہوتے سارے جگ میں ہوتے ہیں یعنی دکھیا سب سنسار۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ پرائے ملکوں میں مقیم لوگ ہم سے زیادہ دکھی ہوتے ہیں کہ ان کے دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ایک خاتون شمع بشیر نام کی لوگوں کے دکھ بانٹتی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنی دنیا ان کی مداح تھی۔ ان کی بے لوث محبت اور ہمدردی کی داستانیں سناتے تھے۔

پچھلے ہفتہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ایک مدت کینسر کا مقابلہ کیا اور پھر ہار گئیں کہ کینسر سے جتنی محبت کر لو وہ ہمیشہ بے وفائی کرتا ہے۔ شمع بشیر ماسکو میں میرے میزبان طارق چودھری کی پہلی اہلیہ تھیں اور ایک مدت سے آرلینڈو میں مقیم تھیں۔ جب عینی نے ان کی موت کی خبر سنائی تو اس کے آنسو رکتے نہ تھے۔ بے شک بیٹی آپ کی نہیں کسی اور کی موت پر بھی روئے تو اس کے آنسو برداشت نہیں ہوتے۔ آرلینڈو اسلامک سنٹر میں نمازجنازہ ہوئی تو بہت ہجوم تھا۔

اگرچہ میں ابھی علیل تھا لیکن ہمت کر کے قبرستان تک چلا گیا۔ میں دیار غیر میں کسی تدفین میں پہلی بار شامل ہو رہا تھا۔ ایک وسیع گھاس بھرا میدان جس میں پلاسٹک کے پھولوں کے خوش نظر گلدستے زمین میں اگے ہوئے لگتے تھے اور ان کے سرہانے مدفون لوگوں کے ناموں کی تختیاں فرش پر ثبت تھیں۔ تابوت قبر میں اتارا گیا۔ ایک بُل ڈوزر کی مدد سے قبر مٹی سے نہیں ریت سے بھر دی گئی اور وہ شمع جس نے محبت کے اجالے کر رکھے تھے اس ریت میں دفن ہو کر ہمیشہ کے لئے بجھ گئی۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar