عالم اور جاہل  میں فرق


دن کے ایک بجنے والے ہیں اور میں صبح آٹھ بجے سے اسلام آباد کی قریبی مارکیٹ سے واپسی کے بعد مسلسل قوالیاں سن رہا ہوں۔ اس وقت تک عزیز میاں قوال، صابری برادران اور نصرت فتح علی خان صاحب کی قوالیوں میں اُردو، فارسی اور عربی  نعتیہ کلام سن کے ہزاروں بار سر دُھن چکا ہوں ۔ یہ دُھن آج کیسے لگی، یہ عالم کیسے طاری ہوا، اس کی وجہ جاننے کے لئے آپ کو میرے ساتھ اُس مارکیٹ جانا ہو گا جہاں میں آج صبح ساڑھے سات بجے ناشتے کا سامان لینے گیا تھا۔

دہی کی دُوکان پر پہنچا تو دوکان پر کھڑا نوجوان اپنے فور جی سمارٹ فون کو دوکان کے اندر رکھے بلیو ٹوتھ سپیکر سے جوڑ کے باہر دہی فروشی کر رہا تھا تو اندر سپیکر پر ’کسی‘ نے حور فروشی کی دوکان کھول رکھی تھی ۔ دہی فروش کا گلا نیکوکاری کے احساس نے دبا رکھا تھا  مگر حور فروش کی آواز ہر سُو گونج رہی تھی۔ نوجوان کے چہرے پر جو تاثرات تھے وہ ہم نے اپنے دور کے  اہل مذہب کے چہرے پر نہیں دیکھی تھی۔ نہ جمال، نہ حال، نہ وہ مستی اور نہ خوش کلامی ۔ ایک سپاٹ اور بے تاثر چہرہ اور چہرے پر نو تراشیدہ تقدس کا تکبر۔

یہ ہمارے سماج کے نئے چہرے ہیں جو اس دھرتی پر چند عشرے قبل بھاڑے کے مول  اگائے گئے ہیں۔

دہی لے کر میں بیکری میں پہنچا۔ یہ اسلام آباد کی معروف بیکری تھی جس کی شاخیں ہر مرکز اور ہر سب سیکٹر  کی چھوٹی مارکیٹس میں موجود ہیں۔  بیکری میں صبح کے وقت خاصی رونق تھی اور  کیش کاونٹر پر بیٹھا  ایک سنجیدہ نوجوان جس کا تعارف کل بیکری کے منتظم نے اپنے انتہائی پڑھے لکھے بیٹے کے طور پر کرایا تھا اسی قسم کا کوئی بیان سب کو سنا رہا تھا جو میں دہی کی دوکان پر سن کر آیا تھا ۔ اس بار بیان کا موضوع حوروں کے علاوہ موسیقی کی ممانعت تھی۔ اس کے بعد سبزی اور پھر کریانہ سٹور پر بھی کم و بیش یہی کچھ سننے اور دیکھنے کو ملا تو سبزی فروش سے پوچھ لیا کہ حضور صبح سویرے ہر دوکان پر ایک ہی شخص کے ملتے جلتے بیانات کیوں چل رہے ہیں تو اس نے سبزی تھیلے میں اور سوال نما جواب پاکبازی کی اکڑ میں لپیٹ کر  دیا :

اور کیا صبح کے وقت ہم موسیقی سنیں؟

ویسے پاکستان میں صبح کے وقت قوالی سننے کی روایات نہیں تھی ؟

میں نے پوچھا تو جواب ملا ۔

ہاں ٹھیک ہے مگر قوال بھی تو کنجر ہوتے ہیں۔

مولانا کو سننے والے سے اسی جواب کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ جواب سنا تو  بھوک اڑ گئی اور اس کی جگہ ایک اور بھوک جاگی، قوالی سننے کی بھوک جو تشکک اور لااردیت کے ادوار میں بھی باقی رہی ۔ وہ قوالیاں سننے کی بھوک جن کی گونج بچپن میں ملتان کے نواحی قصبے میں صبح کے وقت ہر طرف سنائی دیتی تھی ۔ ہم بھائیوں کو صبح سویرے امی  دہی، دال یا چنے لینے کے لئے برتن پکڑا دیتیں۔ ہم برتن اچھالتے  ہوئے  برگد کے درخت کے نیچے  مارکیٹ پہنچتے تو  دہی کی  دوکان کے عقبی حمام میں عزیز میاں قوال کی آواز سنائی دیتی جو جنت سے دستبرداری  کا حوصلہ پیدا کرکے عاصیوں کو بخشش کی نوید سنا رہے ہوتے ۔

جنت مجھے ملے نہ ملے آسرا تو ہے

عاصی ہوں بخش دینے کو اس نے کہا تو ہے

اس کے بعد کریم بخش تیلی کی ہٹی پر دال لینے جاتے  تو آیات کے درپردہ نہاں محبوب کی گلی کا  پتہ ملتا ۔ یہاں خوش ذائقہ دال کے تو مول تھے مگر سماعتوں اور ذوقِ جمال کی ضیافت کا نہ کوئی مول تھا اور نہ دام :

 یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

صرف یہی نہیں سکول جاتے ہوئے عزیز میاں، صابری برادران اور نصرت صاحب ہمارے ساتھ ہوتے ۔ نہر کے کنارے چند گھروں سے جہاں پکوانوں کی خوشبو آتی وہاں ان میں سے کسی ایک آواز بھی سنائی دیتی ۔ پانچ روپے میں  چاول چنے کی پلیٹ کھانے  نہر کے کنارے شیشم کے درخت تلے کھڑے طالب کی ریڑھی پر جاتے تو پر صابری برادران کبھی غنچہ امید کھلنے کی دُعا کرتے سنائی دیتے، کبھی سرِ لامکاں سے ہونے والی طلب کا چرچا ہوتا تو ہم  ِ تصور کی آنکھ سے ’کسی ‘ کو سوئے منتہیٰ جاتا دیکھتے تو تخیل ایک ہی جست میں فاصلوں کے کئی بیکراں سمندر  عبور کرجاتا ۔  کبھی کبھار غلام فرید صبر سے مقبول تر ہوکر سویرے سویرے دلوں میں چراغ محبت  جلاتے ۔

اندھیرے میں دل کے چراغِ محبت

یہ کس نے جلایا سویرے سویرے

المختصر ہر صبح  اعلیٰ پائے کا چنیدہ نعتیہ کلام اور وہ  بھی منور قلوب پر اُتری ہوئی دھنوں کے طلائی ارتعاش میں لپٹا ہوا ۔ ہمارے گھر میں کوئی ٹیپ ریکارڈر نہیں تھا بس ایک ریڈیو اور بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی تھا مگر سویرے سویرے  صبح ناشتے کا سامان لانے یا پھر چھٹی کے روز جُورے کے چائے خانے پر صبح اخبار پڑھتے پڑھتے دسویں جماعت تک پہنچے تو خبر ہوئی کہ اُردو، عربی اور فارسی کا  وہ سب نعتیہ کلام ازبر ہوچکا ہے جو عزیز میاں، صابری برادران اور نصرت صاحب عین اُس طرح چن چن کر لاتے اور ہمارے کانوں میں گھولتے رہے  جیسے شہد کی مکھی ہر پھول سے شہید کی بوند بوند تلاش کرکے لائے اور اپنے پیاسے بچوں کے منہ میں ٹپکا دے۔

یہ  فنکار وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے  نعتیہ شاعری کی جملہ حلاوتیں ہماری نسل کے خون میں شامل کرکے ان کے  قلوب میں عشق کی لو روشن کرنے کے علاوہ شعری ذوق پیدا کیا تھا ۔ ان کا ایک بڑا کمال یہ بھی تھا کہ ان کے نزدیک محبوب بس محبوب تھا، زمان و مکان میں کہیں جنم لینے والی کوئی تاریخی شخصیت نہیں۔ تاریخی شخصیت اس لئے نہیں کیونکہ تاریخی ہیرو ہر ایک کا ہیرو نہیں ہوسکتا ۔ زرخیز خطوں کے یہ فنکار صحرائی نظریات کو اپنی زمین کے میٹھے پانیوں سے سیراب کررہے تھے۔

 یہ شعر فہمی، یہ ادبی ذوق اور ہواؤں میں گرہیں لگاتے سروں کی پہچان، یہ درد، یہ سوز، یہ آرزو مندی  او ر دیگر خزانے ہمیں سویرے سویرے لاشعوری طور پر قوالی سنتے سنتے مل گئے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک روز یونہی چلتے چلتے کہیں سے ’عشق کی واردات کچھ بھی نہ تھی ‘ کی صدا سنی تو فلسفہ حسن و عشق پر پہلی بار غور کرنے کا موقع ملا ۔

 آج مارکیٹ سے لوٹ کر احساس ہوا کہ عاشق  میراثی،  منظور حمام والا  اور  چائے فروش جُورے  جیسے میراث کے وارثوں کے کتنے احسانات ہیں ہم جیسوں پر ۔جب میراث نہ رہی اور میراث کے وارث کنجر کہلائے تو  ہم پھکڑ پن کی ڈھلوان پر کھڑے مسلسل گر نے لگے۔سماجی و ثقافتی تخریب کاری کو نیکوکاری اور علم سمجھنے لگے اور سطحی پن کو عروج ۔  ملبے کو تعمیر سمجھنے لگے اور تعمیر کو ملبہ۔

ہمارے دادا جان کہا کرتے تھے کہ عالم وہ ہے  جو آپ کو اس قدر گہرا کردے کہ بڑے جہاز آپ کے قلب میں لنگر انداز ہوسکیں۔ لہٰذا ہم تو عالم انہیں سمجھتے ہیں جو ہمیں سطحی بنانے کی بجائے گہرا اور وسیع تر کردیں ، اس قدر گہرا، اس قدر کشادہ کہ سچائی کا بڑا جہاز ہمارے قلوب میں بھی لنگرانداز ہوسکے۔ ہمیں جس نے یہ وسعتیں عطا کیں ہمارے نزدیک وہی عالم ہیں چاہے  کوئی انہیں کنجر کہے یا میراثی ۔ اس کے علاوہ عالم اور جاہل  میں تمیز کرنے کے کسی اور پیمانے کو ہم نہیں مانتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).