وارے کی عورت، وارے کا مرد


سوشل میڈیا پر ایک دوست نے ہڈ بیتی بیان کی، کِہ اُنھوں نے ایک غریب گھرانے کی بیٹی کی شادی کا بِیڑا اُٹھاتے ہوئے، اُن کو یقین دِلایا، کِہ آپ رشتہ دیکھ کے تاریخ طے کر دیں، شادی پہ اُٹھنے والے اخراجات کی کوئی سبیل ہو جائے گی۔ گرچہ خود اُس گھر کے جوان، نکھٹو تھے، لیکن والدین کو اپنی بچی کے لیے ایسا ہینڈ سم نو جوان مطلوب تھا، جس کی آمدن لاکھ ڈیڑھ لاکھ ماہانہ سے اوپر ہو، وہ اپنی کار اور ذاتی مکان کا مالک ہو۔ اس طرح لڑکی کے والدین کے خیال میں، یہ بہ تر ہوتا، کہ اُس لڑکے کے والدین انتقال کر چکے ہوں، بہن بھائی کوئی نہ ہو، لیکن اگر اُن میں سے کوئی زندہ ہے، تو لڑکا اُس سے اظہار لا تعلقی اختیار کر چکا ہو۔ دوست کا کہنا ہے، کہ اگر چہ میں نے اُن کی مدد کا وعدہ، جائز اخراجات کی صورت میں کیا تھا، لیکن میرے تجویز کردہ چھہ رشتے کسی نہ کسی معمولی وجہ کا بتا کے مسترد کر دیے گئے۔ تھک ہار کے میں نے یہ کاوش ترک کر دی۔

اسی سے مجھے ایک اور دوست کا کہا یاد آیا، ’’آج کل کی لڑکیاں بہت ڈِمانڈنگ ہیں‘‘۔ گو یہ ایک جملہ ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی داستانیں ہیں، جنھیں بیان کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں۔ میں نے اپنے اِرد گِرد ’’اچھے رشتوں‘‘ کے متمنی والدین کی بیٹیوں کو اوور ایج ہوتے دیکھا ہے۔ عمر بِیت جاتی ہے، ایسا  رشتہ نہیں ملتا، جسے ’’وارے کا رشتہ‘‘ کہا جا سکے۔ میں نے اُن گھروں کو ٹوٹتے دیکھا ہے، جہاں بیٹیوں کو اس قسم کے مشورے دیے جاتے ہیں، کِہ ’’تمھارا شوہر یہ نہیں کرتا، تو تم بھی یوں کر کے اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دو‘‘۔ پھر وہ بیٹیاں میکے آ کے بیٹھ جاتی ہیں، تو مرد ذات پر تبرے بھیجے جانے لگتے ہیں، کِہ عورت کو تو اس معاشرے میں وہ مقام ہی نہیں دیا جاتا، جس کی حق دار ہے۔ جواباََ کہا جائے، ایسی عورت ’’وارے کی عورت‘‘ نہیں، تو؟

اس بات سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا، کہ قصور ایک فریق کا ہوتا ہے۔ حق بات ہے کہ ہمارا یہ معاشرہ، آئڈیل سوسائٹی نہیں ہے۔ بیٹیوں کے باپ ہونے کے ناتے سے، میں جس طرح فکر مند رہتا ہوں، یہی اس امر کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، کہ مجھے یہاں بے سکونی ہے۔ آپ بیٹے کے والدین ہیں، یا بیٹی کے، پاکستان وہ ریاست نہیں جہاں تحفظ کے احساس کو لے کر کے جیا جا سکے۔

ریاست تو ایک طرف، افراد کی بات رہی تو ہمارے یہاں آئے دن، بیٹی کے والدین کو تہنیت وصول کرتے، ایسے فقرے سننے کو ملتے ہیں، ’’خدا نصیب اچھے کرے، برا حال ہے‘‘،’’سکھی گھر ملے، خدا جانے کیا ہو‘‘، ’’پتا نہیں کیسے گھر جائے گی، اللہ مہربانی فرمائے‘‘۔ اس طرح کے جملے والدین کا دِل میلا کرنے کو بہت ہوتے ہیں۔ یہ محسوس کیا جا سکتا ہے، کہ اُن کے ایسا کہنے سے مراد ہوتی ہے، کِہ بچی کا اپنا کوئی اختیار نہیں، جہاں بیاہ کے جائے گی، بس کسی طور وہاں بسی رہے، ’’سدا سہاگن رہے‘‘۔ جس گھر میں رہے دال روٹی ملتی رہے، سر پہ چھت کا سایہ رہے۔ ایسا اس لیے بھی کہا جاتا ہے، کِہ ہم اپنی بچیوں کو خود مختار بنانے کا سوچ ہی نہیں رہے۔ ہماری نظر میں بچیوں کو پیدا کرنے کا ایک ہی مقصد ہے، کہ اُنھیں پڑھا لکھا کر، جوان کر کے، شادی کر کے رُخصت کر دیا جائے؛ ’’اُن کے گھر‘‘ بھیج دیا جائے۔ ’’یہ تو ہمارے پاس کسی کی امانت ہیں‘‘۔

’’بہن، بیٹی کی کمائی کھانا‘‘ یہ جملہ کسی گالی سے کم نہیں۔ اس مخصوص پدر شاہی معاشرے کی سوچ کی عکاس ہے، جس میں کہنے کو لڑکی گھر کی ملکہ ہے، در حقیقت ملازمہ کے اختیار لیے ہوتی ہے۔ عورت بھی کما کے لا سکتی ہے، اور مرد بھی گھر کے کام کاج کر سکتا ہے۔ بہن بیٹی کی کمائی پر پھر کسی حد تک سمجھوتا کر لیا جاتا ہے، لیکن گھر کی دیکھ بھال کرنے والے مرد کو نکھٹو ہی سمجھا جاتا ہے۔ کچھ حلقے اس پہ تو متفق پائے جاتے ہیں، کہ عورت بھی کما کے لا سکتی ہے، لیکن اس پہ شاذ ہی کوئی متفق ہو گا، کہ گھر داری کو مرد سنبھالے۔ ہمارے یہاں کما کے لانے والی عورت کی عزت تو ہو سکتی ہے، گھر کے کام کاج نبٹانے والے مرد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کیوں کہ ’’کما کے لانا مرد کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ٹھیک ہے، اس میں کوئی برائی نہیں کہ کما کے لانا مرد کی ذمہ داری ہو، کفیل کی اہمیت اپنی جا، لیکن جیسے گھر کی دیکھ ریکھ کرنے والی برابر کی اہمیت رکھتی ہے، گھر داری نباہنے والے مرد کو کیوں برابری کا مقام نہیں حاصل ہوتا؟ اس لیے کہ ہمارے سماج کی یہ رِیت نہیں رسم نہیں۔ دونوں میں سے کفیل کوئی بھی ہو، کفیل کی مشکلات کا ادراک ہونا چاہیے۔ گھر جو بھی سنبھالے، اُس کو عزت دینی چاہیے۔ اِس توازن کو عورت بگاڑے یا مرد، ہر دو صورت میں خرابی ہے۔

’’آج کی لڑکیاں بہت ڈِمانڈنگ ہیں‘‘۔ ’’ڈِمانڈنگ‘‘ لڑکی چاہتی ہے، اُس کا مرد وہ کما کے لائے، جو خواب وہ ٹی وی ڈرامے، فلمیں دیکھتے، رسائل پڑھتے دیکھتی آئی۔ ہر لڑکی کسی شہزادے سے کم کا خواب کیوں دیکھے۔ خواب دیکھنے پر پا بندی تو لگائی نہیں جا سکتی، لگانی بھی نہیں چاہیے، مگر حقیقت احوال کا مقابلہ کرنے کی تربیت تو دی جا سکتی ہے؛ نہیں دی جاتی۔ بیش قیمت آرام دہ گاڑی ہو، اُس کے من پسند سامان سے بھرا گھر، ہر موقع کے لیے عمدہ لباس، اچھی کالونی میں مکان، کہ جس کا سپنا دیکھا تھا؛ نوکر چاکر۔ روک ٹوک کرنے والی ساس، نند نہ ہو۔ بچے پیدا ہونے کی صورت میں، پیمپر سے لے کے، قصبے کے سب سے بڑے اسکول میں داخلے کے لیے تمام تر اخراجات، مرد کما کے لائے، اور وہ عورت بس خواب در خواب دیکھتی چلی جائے، جسے پورا کرنا، فقط مرد کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر پاتا، تو یہ اُس کی خامی ہوئی۔ ان کے تئیں ایسا مرد ’’وارے کا مرد‘‘ نہیں ہے۔ لطف تو تب ہے، دونوں مل کے ایک طرح کے خواب دیکھیں، اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں، جہاں کمی رہ جائے، ایک دوسرے کا دِل آسا بنیں۔

اپنے خوابوں کو کسی دوسرے کی جیب سے خریدنا، یہی ایک وجہ ہے، کہ آج رشتے ناتے طے کرتے، لڑکے کی مالی حالت دیکھی جاتی ہے۔ دیکھا جاتا ہے، آیا وہ ہماری بچی کے خواب پورے کر بھی پائے گا، یا نہیں! یہ نہیں دیکھا جاتا، کہ لڑکا کتنا خوش اخلاق ہے، زندگی گزارنے کے بابت اُس کے نظریات کیا ہیں۔ عورت کا اُس کی نظر میں کیا مقام ہے۔ اس عورت کی نظر میں جیون ساتھی کے کیا معنی ہیں۔ اولاد کی تربیت کے لیے ان دونوں نے کیا سوچ رکھا ہے۔ وغیرہ۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیا لڑکا ہنر مند ہے، با صلاحیت ہے، اُمید کرتے ہیں، کہ وہ کل کو اچھے مقام پر ہو۔ لیکن عموماََ ایسے نہیں پرکھا جاتا۔ ہمیں اُس کا آج دیکھنا ہے، اور اُس کا آج در اصل اُس کے باپ کی حیثیت ہے۔ شوہر جوان چاہیے، لیکن حیثیت اُس کے باپ کی دیکھنی ہے۔

ہمارے یہاں ریا کاری کا یہ عالم ہے، کہ ہم نے اپنی اولاد کو بھی نہیں بخشا۔ ہمارا بچہ اسکول کالج میں اس لیے اچھے نمبر لے، کہ ہمارے فلاں رشتے دار کی فلاں اولاد نے اتنے نمبر لیے ہیں۔ اس سے کم نمبر آئے تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔ شریکوں کی گاڑی، بنگلا، بنک بیلنس ہم سے بڑھ کے ہے، تو ہماری ناک بچ ہی نہیں سکتی۔ اس ناک بچانے کے لیے میاں بیوی ایک دوسرے ہی کی نہیں، اولاد کی زندگی بھی اجیرن کر کے رکھ دیتے ہیں۔ جوانی کے خوب صورت دِن اسی نوک جھونک، جلنے کڑھنے میں بیت جاتے ہیں۔ بہ ظاہر جس اولاد کے لیے سب کیا تھا، وہ شادی کے بعد الگ مکان میں رہنا چاہے، تو بڑھاپے میں یہ بڈھا بڈھی پوتے پوتیوں کو گود میں کھلانے کو ترستے ہیں۔ پھر اُن کی نظر سے دیکھا جائے، تو ایسی اولاد ’’وارے کی اولاد‘‘ نہیں ہوتی۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran