افغانستان میں قیام امن، کیا معاہدہ ہوسکے گا؟


افغانستان میں جاری جنگ کوختم کرنا اوروہاں سے امریکی اوراتحادی افواج کا انخلا گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخابی نعرہ تھا۔ صدرمنتخب ہونے کے بعدعملی طورجس تیزی اورسنجیدگی کے ساتھ اس نعرے کو پورا کرنا چاہیے تھا اس پروہ اس طرح عمل درآمد نہ کرسکے۔ افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور افواج کوواپس بلانے میں صدرڈونلڈ ٹرمپ کو مخالف فریق افغانستان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کرنے میں ڈھائی برس لگ گئے۔

ان مشکلات سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے پرامریکا کے سیاسی منصوبہ سازوں اور فوجی حکام کے درمیان خلیج موجود ہے۔ شنید یہی ہے کہ امریکا کے فوجی منصوبہ سازاب بھی افغانستان چھوڑنے پرتیارنہیں۔ سابق امریکی صدرباراک اوبامہ نے بھی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بھی فوجی پالیسی سازافغانستان سے جانے کے لئے تیارنہیں تھے اس لئے وہ بھی افغانستان میں جنگی شعلوں کو بجھانے میں ناکام رہے۔

افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے اوروہاں سے امریکی اوراتحادی افواج کو واپس بلانے پرسیاسی منصوبہ سازوں اور فوجی حکام کے درمیان اختلاف کیوں ہے؟ یا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وائیٹ ہاؤس اور پینٹاگون اس اہم مسئلے پراختلاف کا شکار کس وجہ سے ہیں؟ وائیٹ ہاؤس میں موجود سیاسی منصوبہ سازوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں ان کی افواج ناکامی سے دوچار ہیں، اب وہاں مزید قیام ملکی اور قومی وسائل کا ضیاع ہے۔ اس لئے ان کی کوشش ہے کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہواورامریکی اور اتحادی افواج بلا تاخیر وہاں سے واپس چلی جائیں۔ اس کے برعکس پینٹاگون میں موجود پالیسی سازوں کا موقف ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم افغانستان میں کامیابی حاصل نہ کرسکے لیکن بغیر کسی منصوبہ بندی یا فوری انخلا امریکی مسلح افواج کے لئے پوری دنیا میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

ان کو یقین ہے کہ افغانستان نیشنل آرمی (فوج) اور افغانستان ملی اردو (پولیس) پر کثیرسرمایہ کاری کے باوجود وہ اس قابل نہیں کہ امریکی اور اتحادی افواج کے جانے کے بعد وہ متحرب گروہ، افغان طالبان کا مقابلہ کرسکیں۔ خود افغانستان کے سابق حکمران حامد کرزئی اور موجودہ صدرڈاکٹراشرف غنی بھی امریکی فوجی حکام کے ساتھ اس نقطے پر متفق ہیں کہ افغانستان میں جنگ بندی ضرورہونی چاہیے لیکن وہ فوری طور پرامریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان چھوڑ جانے کے مخالف ہیں۔

ان کو بھی یہی خدشہ ہے کہ افغانستان کی فوج اور پولیس اس قابل نہیں کہ افغان طالبان کا مقابلہ کر سکیں۔ بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر بغیر کسی معاہدہ کے امریکی افواج نے افغانستان چھوڑدیاتوطالبان دوبارہ مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں تخت کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ کابل میں موجود غیرملکی سفارت کار بھی امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کے حامی ہیں۔ اس لئے امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے وائیٹ ہاؤس کے منصوبہ ساز گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پورا ختیار ہے کہ وہ افغانستان میں دوعشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کا اعلان کریں اور وہاں سے امریکی اور اتحادی افواج کو واپسی کا حکم دیں، لیکن وہ ایسا کرنے سے گریز کررہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں قاعدہ اور دستور یہی ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے متعلقہ ادارے سے مشاورت کی جاتی ہے۔ جب تک متعلقہ اداروں کے پالیسی ساز متفق نہ ہوں اس وقت تک امریکی صدر اہم نوعیت کے مسائل کو اپنے طور پر سیاسی برتری یا ذاتی پسند وناپسند کی بنیاد پرحل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔

صدرڈونلڈ ٹرمپ اگر امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مشوروں کے برعکس بھی افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر بھی ان کو یہ خطرہ نہیں کہ وہ ان کو اقتدار سے محروم کر دیں گے لیکن وہاں روایت یہی ہے کہ جس کاکام اسی کو ساجھے۔ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ مشرقی اور مغربی محاذ پر فوج موجود ہے لیکن ہر وزیراعظم کی کوشش ہوتی ہے کہ جب میں چاہوں توافواج کو محاذوں پر بھیجنے کاحکم دوں اور جب حکم دوں تووہ واپسی کا سفر باندھیں۔

حالانکہ یہ عام حالات میں بھی نا قابل عمل منصوبہ ہے اور ایمرجنسی کے حالات میں بھی یہ قابل عمل نہیں۔ اسی طرح ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنوں میں فوج ہر آول دستہ ہے، لیکن ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ سیکیورٹی اہلکار کسی ایس او پی کی بجائے ان کی خواہشات کے مطابق ادھر سے ادھر ہوں۔ ان مسائل میں وہ فوجی حکام کے مشوروں کوغیراہم بلکہ مداخلت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ قربانیوں کے باوجود ایوان وزیراعظم اور جی ایچ کیو میں تعلقات کبھی بھی بہتر نہیں رہے۔

حا لانکہ نقطہ بہت ہی معمولی ہے کہ سیکیورٹی اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے پالیسی بناتے وقت فوج کو نہ صرف مشاورت میں شامل کرنا چاہیے بلکہ ان کے مشوروں کو ترجیح بھی دینی چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح معیشت کو بہتر کرنے کے لئے وزارت خزانہ، تجارت اور ایف بی آر کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ جس طرح خارجہ معاملات میں وزارت خارجہ کے مشوروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر چہ تاخیر کے بعد افغانستان میں جنگ بندی کے لئے اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ دوعشروں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لئے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد فوری کوششوں کا آغاز کرتے لیکن انھوں نے ایسے وقت میں افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا آغاز کیا جب افغانستان میں چند مہینے بعد صدارتی انتخابات ہونے تھے۔ بتا یا یہی جارہا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاملات بڑی حد تک حل ہو چکے ہیں۔

لیکن افغانستان میں موجود دیگر فریقین کے ساتھ ابھی تک بات چیت شروع بھی نہیں کی گئی ہے۔ صدارتی انتخابات میں ڈیڑھ ماہ باقی ہے۔ لیکن پاکستان کے علاوہ کسی نے بھی مستقبل کے لئے لائحہ عمل نہیں دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں صدارتی انتخابات سے قبل قومی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دیا تھا۔ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کیا تھا۔ امریکا اور افغانستان کے طالبان ابھی تک مستقبل کے منظر نامہ کے بارے میں خاموش ہیں۔ افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں نے بھی اس بارے میں لب سی رکھے ہیں۔ محسوس ایسے ہو رہا ہے کہ وہ بھی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی پٹاری کھلنے کا منتظر ہے۔

صورت حال جو بھی ہو لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ اگر امریکا اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کامیاب نہیں ہوتی تو اس ناکامی کا سارا ملبہ اسلام آباد ہی پر گرے۔ پاکستان کو دونوں طرح کے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیاررکھنا ہوگا۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو بھی، جبکہ ناکامی کی صورت میں بھی پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لئے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی پالیسی بنانی ہوگی۔ اس لئے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے دوبارہ کوششوں کا آغاز امریکا میں صدارتی انتخابات کے بعد ہی ہو گا۔

اس دوران واشنگٹن کی کوشش ہوگی کہ وہ بلا وجہ اسلام آباد کو تنگ کرتا رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا، بھارت کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات خراب کریں یا افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں حالات خراب کرنے کی کوشش کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اسلام آباد دونوں طرح کے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).