مریم اور ن لیگ کے بیانیے میں تضادات اور اپوزیشن اتحاد کا مستقبل



سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد ایک بات جو بڑی واضح اور کھل کر سامنے آئی ہے وہ ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور مریم نواز اور خود ن لیگ کے بیانیوں میں تضادات کی۔ کیوں کہ کچھ مسلم لیگی زعماء چند اینکرز حضرات کی زبان بولتے ہوئے پاکستانی سیاست کے سب سے آسان ہدف آصف علی زرداری کو اس سارے سانحے کا ذمے دار ٹھہرانے میں پورا زور لگانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں، جبکہ مریم نواز بلاول سے اپنے سیاسی تعاون اور اعتماد کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں، ان کو اس حوالے سے بلاول کی حمایت اور مکمل تعاون بھی میسر ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے ذمے دار چودہ اراکین ایوانِ بالا کون تھے؟ اور کن مفادات ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے حلف، نظریات اور وفاداریوں کو داغدار بنایا؟ اس بات سے قطع نظر اب کچھ فری لانس بھونپو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں ان کے کردار کو مشکوک بنانے میں کھل کر بجنا شروع ہوگئے ہیں۔

محترم آصف علی زرداری نے کچھ ہفتے قبل نیب کورٹ میں پیشی کے موقع پر اپنے خیبر پختونخواہ سے ایک سینیٹر کی بیوفائی کا اشارہ دیا تھا مگر وہ پر اعتماد تھے کہ تمام منفی ہتھکنڈوں اور ”نا اہل ترین“ کی خرید وفروخت کی کوششوں کے باوجود تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر جو کچھ ہوا پوری قوم اور دنیا نے اس کا نظارہ کیا مگر اس تحریک عدم اعتماد کے آفٹر شاکس آہستہ آہستہ متحدہ اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دیں گے اس کی امید اس طرح سے نہیں تھی۔ ملک کے بڑے بڑے ٹی وی چینلوں پہ بیٹھے نام نہاد تجزیہ نگار اور اینکر، جو سدا سے بغضِ زرداری اور پیپلز پارٹی میں سر تا پا ڈوبے رہے ہیں، دعوے کرتے دکھائی دیے کہ یہ تحریک آصف علی زرداری کی ایما پہ ناکام ہوئی اور اس کی ناکامی میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے اراکین کا کردار ہے۔ ایک اینکر نے تو یہاں تک کہا کہ ”ایک ریئل اسٹیٹ ٹائیکون زرداری صاحب سے ملا اور پھر یہ ڈیل ہوئی۔“ کسی نے کہا کہ ”سنجرانی صاحب کو چیئرمین بنوایا بھی زرداری صاحب نے اور بچایا بھی زرداری صاحب نے۔“ جبکہ زرداری صاحب نے بڑے واشگاف الفاظ میں کہا کہ نہ تو سنجرانی کو انہوں چیئرمین بنوایا تھا اور اب نہ ہی ان کے ہٹنے میں ان کا کوئی کردار ہے اس دوٹوک وضاحت کے باوجود جتنے منہ اتنی باتیں۔

ان ٹی وی اینکرز کی غیرجانبداری اور ان کے آزادانہ تبصروں کی تو خیر کیا بات کریں سب کو معلوم ہے کہ کون کتنے میں کہاں کہاں اور کس کس کے لئے کن مفادات کے تحت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے اہم اور تشویشناک مسئلہ اپوزیشن کے اتحاد کا ہے جس کو سب سے زیادہ خطرہ خود ان کے اپنے ہی مہربان ساتھیوں سے ہے خاص طور پر مسلم لیگ ن میں موجود کچھ نادان ساتھیوں سے۔ جیسے کل ہی خواجہ آصف صاحب فرما رہے تھے کہ ”چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیپلز پارٹی نے ناکام بنائی کیونکہ وہ اپنی سندھ حکومت کھونا نہیں چاہتے۔“ حالانکہ خواجہ صاحب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو بڑی واضح اور مستحکم اکثریت حاصل ہے اور اس کے خلاف ماسوائے کسی غیر آئینی اقدام کے کسی اور طریقے سے سندھ حکومت کو نہیں ہٹایا جا سکتا۔ دوسرا انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کے بھی چار پانچ لوگ منحرف ہوئے ہیں تو جناب آپ کی بات مان لیں تو پیپلز پارٹی کے اکیس اور پانچ آپ کے اور تین جی یو آئی کے اس طرح تو تحریک عدم اعتماد کے خلاف ساٹھ سے زائد ووٹ پڑتے پینتالیس کیوں پڑے؟

انہوں نے فرمایا کہ ”انہوں نے آصف علی زرداری پہ انویسٹمنٹ کرکے غلطی کی۔“ ذرا اس کی وضاحت بھی فرما دیں کہ کیا انویسٹمنٹ کی انہوں نے زرداری صاحب پہ؟ بلکہ زرداری صاحب اور ان کے صاحبزادے اور جماعت نے اعلیٰ ظرفی اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مثال قائم کرتے ہوئے نہ صرف میاں صاحب کی بیماری میں جیل جا جا کر ان کی عیادت کی بلکہ ان کی بار بار بے وفائیوں اور دھوکا دہی، پارٹی میں ن لیگ کے ساتھ قریبی روابط رکھنے پر شدید اعتراضات اور تحفظات کے باوجود ماضی کی قباحتوں اور رنجشوں کو بھلا کر دوستی اعتماد اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ کیا خواجہ آصف اپنے اور اپنی قیادت کی گھٹیا زبان اور الزام تراشیاں بھول گئے جو وہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف استعمال کرتے تھے، کیا وہ شہید بھٹو کے خلاف ضیاء الحق کی آلۂ کاری بھول گئے، کیا وہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف احتساب الرحمن کے جعلی احتساب اور انتقام کو بھول گئے، کیا وہ میمو گیٹ اسکینڈل کو بھول گئے، کیا وہ پیپلز پارٹی کی اور کارکنان کے خلاف کارروائیاں اور سندھ حکومت کے خلاف اپنے دور اقتدار میں روا رکھے گئے امتیازی سلوک بھول گئے؟

مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے لیڈران اکثر و بیشتر ایوانوں میں اور ایوانوں کے باہر کھڑے ہوکر شہید بھٹو ان کی دختر اور پیپلز پارٹی کے خلاف اپنے سابقہ رویوں پہ ندامت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ قصوروار تھے تبھی آپ کو آج معافیاں مانگنے اور اظہارِ ندامت کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے نا۔ آج بھی جب ملکی تاریخ میں پہلی بار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سیاسی روابط پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کی وجہ سے بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں اعتماد کی فضا قائم ہو رہی ہے تو نجانے کیوں اس اعتماد کو ایک بار پھر سے بداعتمادی میں بدلنے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں۔ کوئی تو ہے جو کسی کی ایما پہ یہ اعتماد اور انڈرسٹینڈنگ سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں سرتوڑ زور لگانے میں مصروف ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قربتوں اور اتحاد پہ پیپلز پارٹی میں بھی یقیناً اختلافِ رائے ہوگا مگر یہ اختلافِ رائے پارٹی ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے رکھا جاتا ہے اس طرح کھلے ڈھلے ٹی وی چینلوں پہ بیٹھ کر رائے زنی نہیں کی جاتی۔ مریم نواز صاحبہ جس طرح اپنی پارٹی کے بیانیے کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ اسے جس جرات اور برجستگی کے ساتھ لے کر عوام میں نکلی ہوئی ہیں اسی کی وجہ سے مسلم لیگ ن ابھی تک عوامی طور پر متحرک نظر آ رہی ہے ورنہ بغضِ زرداری اور بغضِ پیپلز پارٹی میں جکڑے لیگیوں نے تو اسے صرف ڈارئینگ رومز تک محدود کردینا تھا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلوا کر اختلافی موضوعات پر کھل بحث کی جائے اور اپنی صفوں میں چھپے غداروں کا سراغ لگا کر انہیں نشان عبرت بنایا جائے اور یہ عہد کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ غداری کرنے والی کسی بھی شخصیت کو چاہے وہ کتنی ہی بڑی با اثر اور اپنے حلقے سے بار بار منتخب ہونے والی ہی کیوں نہ اسے دوبارہ پارٹیوں میں جگہ نہ ملے۔

مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف حالانکہ اپنے لیڈران کو تحریک عدم اعتماد اور اپوزیشن اتحاد کی کسی بھی جماعت کے بارے میں بیان بازی سے روک چکے ہیں مگر خواجہ آصف اور ان جیسے کچھ اور لیگیوں کی پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب پہ تنقید ان اندیشوں کو تقویت دے رہی ہے کہ مریم نواز کے بیانیے اور بحیثیت جماعت ن لیگ کے بیانیے میں تضادات ہیں وہ ووٹ کی عزت، اداروں کی جانبداری، احتساب کے انتقامی شکل اختیار کرنے کے خلاف انتہائی جارحانہ مؤقف اختیار کرکے اپنے ووٹرز، کارکنوں، ہمدردوں اور عوام کو اعتماد میں لینے کی مہم چلانے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ان کے ساتھ ان عوامی ریلیوں اور بیانئے پہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ درجے کی قیادت کہیں کھڑی نظر نہیں آتی۔ اکثر لیگی اکابرین خان صاحب کو ملک پہ مسلط کرنے والی قوتوں کے خلاف مصالحانہ رویہ روا رکھ کر اب بھی کسی ڈھیل کے گمان میں ہیں۔

دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری بھی انتہائی جارحانہ انداز میں اسٹیبلشمنٹ کو للکار رہے ہیں۔ وہ عوامی مسائل، ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مشکلات، نیازی حکومت کی نا اہلیوں نالائقیوں پہ اپنے ووٹرز اپنے کارکنوں اور عوام کو متحرک کرنے کی کوششوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو اب بھی باہمی اعتماد کی فضا برقرار رکھے ہوئے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف بھی اپنے شعلہ بیان مقررین کو شعلہ بیانیوں سے باز رکھنے کے جتن کرتے نظر آ رہے ہیں مگر، اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اعتماد اور اتحاد میں اس بار دراڑ پڑ گئی اور دونوں جماعتیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دور ہوگئیں تو یہ نہ صرف پاکستان کے سیاسی مستقبل، متحدہ اپوزیشن کے اتحاد، بلکہ مریم اور بلاول کی ان کوششوں کو بھی شدید دھچکہ لگے گا جو وہ میثاقِ جمہوریت طرز پہ ایک اور باہمی اعتماد سازی کے معاھدے کی جانب بڑی تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ مریم نواز شریف کا بیانیہ مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہرگز نہیں ہے کیونکہ مریم اور بلاول کی اس وقت سیاسی انڈرسٹینڈنگ بہت ہی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوچکی ہے اور دونوں سیاسی رہنما اپنی اپنی پارٹیوں کے روشن مستقبل کا استعارہ ہیں جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک آج بھی میاں نواز شریف اور ان کے بعد ان کی بیٹی مریم نواز سے جُڑا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).