پاکستان کے کمزور سفارتی ردعمل سے جنگ کے خطرات میں اضافہ


کشمیر سے متعلق انڈیا کے بڑے جارحانہ حملے کے دوسرے دن وزیر اعظم عمران خان نے انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی صورتحال پر قانونی، سیاسی، سفارتی ردعمل سے متعلق تجاویز تیار کرنے کے لئے سات رکنی کمیٹی قائم کی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور کور کمانڈر کانفرنس ہوئی۔ چین نے کشمیر اور لداخ سے متعلق الگ الگ طرح کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کی قائم کمیٹی میں وزیر خارجہ، سیکریٹری خارجہ، اٹارنی جنرل، عالمی قوانین کے ماہر وکیل اور وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی احمر بلال صوفی کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور ڈی جی آئی ایس پی آر شامل ہوں گے۔ یعنی ابھی تک ہمارے ملک کے کرتا دھرتا افراد کو معلوم ہی نہیں کہ کس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا جائے۔

 وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ خصوصی اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کی حکومت کشمیریوں کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کرے گی اور جب وہ ایسا کرے گی تو ردعمل آئے گا۔ انڈین حکومت نے کشمیر میں نسل کشی تو اس خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ نیوکلیئر بلیک میل نہیں کر رہے بلکہ عام فہم بات کر رہے ہیں۔ ہم آخری قطرے تک لڑیں گے تو یہ ایک ایسی جنگ ہو گی جس کو کوئی نہیں جیت پائے گا، جو کبھی ختم نہیں ہو گی اور اس میں سب ہاریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان انڈیا کے اس اقدام کو عالی سطح پر اٹھائے گا۔ ہم ہر فورم میں جائیں گے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بین الاقوامی کریمینل کورٹ جائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ مسئلہ کیا ہے۔ اگر پھر پلوامہ کی طرز کا واقعہ ہو گا اور انڈیا پھر پاکستان پر الزام دھرے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے قائد حزب اختلاف کی تقریر کے جواب میں کہا کہ ن لیگ بتائے کہ اس کی حکومت نے کشمیریوں کے لئے کیا کیا تھا؟انہوں نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ مجھے تجویز دیں کہ وہ کونسا کام میں نے نہیں کیا؟ کیا میں بھارت پر حملہ کر دوں؟ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کہا کہ کشمیر کے حالات سے متعلق اب روایتی قرارداد نہیں، ٹھوس فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہم کشمیر کی صورتحال پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔ کشمیر معاملے پر سعودی عرب سے کوئی رد عمل نہیں آیا، کیا یہ تنہائی نہیں ہے؟ شہباز شریف نے مسئلہ کشمیر کو افغان امن عمل سے مشروط کئے جانے کی بات بھی کی۔

کشمیر سے متعلق انڈیا کی بڑی جارحیت کے اقدام کا فوری ردعمل تو یہی بنتا تھا کہ دنیا کو پاکستان کی شدید تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے، مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں اٹھانے اور ہنگامی بنیادوں پر عالمی سفارتی مہم کا اعلان کیا جاتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب انڈیا مزید کیا کرے گا کہ جس کے بعد پاکستان جواب دے گا؟ وزیر اعظم عمران خان کا پلوامہ واقعہ کا حوالہ دینا ایسا معذرت خواہانہ انداز تھا جو کمزوری کا کھلا اظہار رکھتا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں کشمیر کی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ شرکا نے حکومت کے بھارتی اقدامات کو مسترد کرنے کے فیصلے کی بھرپور تائید کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا کہ پاکستان آرمی کشمیریوں کی جائز جدوجہد کی کامیابی تک ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ پاکستان آرمی اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مکمل تیار ہے، پاک فوج اس سلسلے میں کسی بھی حد تک جائے گی۔

مسئلہ کشمیر سے متعلق ملک کی ان اہم حکومتی،سرکاری مصروفیات کے اسی دن اسلام آباد کے مختلف علاقوں اور بالخصوص ریڈ زون میں انڈیا کی انتہا پسند ہندو تنظیم شِو سینا کے رہنما کے پیغام والے بینرز بجلی کے کھمبوں پرآویزاں دیکھے گئے۔ سوشل میڈیا پہ بھی بینر کی تصاویر اور خبر وائرل ہوئیں۔ ان بینرز پر شِو سینا کے رہنما سنجے راوت کا وہ بیان لکھا تھا کہ آج جموں اور کشمیر لیا ہے کل بلوچستان لیں گے اور مجھے وشواس ہے کہ وزیر اعظم اکھنڈ ہندوستان کا سپنا پورا کریں گے۔ پولیس اہلکاروں کی ان بینروں کو اتارتے ہوئے تصاویر بنانے پر صحافیوں کو روکا گیا۔ پولیس نے چند افراد کو سی سی ٹی وی کی مدد سے گرفتار کرنے کا دعوی کرتے ہوئے بینرز تیار کرنے والے پرنٹنگ پریس کو سیل کرنے کی بات بھی کہی۔

اسی دن چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا تاریخی مسئلہ ہے۔ عالمی برادری بھی اس پر متفق ہے۔ دونوں ملک ایسے کسی اقدام سے گریز کریں، جس سے یکطرفہ طور پر اسٹیٹس کو میں تبدیلی آئے اور تناو میں اضافہ ہو۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر چین کو گہری تشویش ہے، کشمیر پر چین کا موقف واضح اور یکساں ہے۔ متعلقہ فریقین کو اس مسئلے پر تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت اور رابطوں کے ذریعے متعلقہ مسائل حل کریں اور علاقائی امن اور استحکام کا تحفظ کریں۔

کشمیر پر انڈیا کی بڑی جارحیت پر ردعمل کے برعکس چین نے لداخ کے معاملے میں سخت رویے کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ لداخ سے متعلق انڈیا کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے ایک الگ بیان میں لداخ سے متعلق انڈیا کے اقدام پر ردعمل میں کہا کہ چین بھارت کے اس اقدام کو قبول نہیں کرتا اور نا ہی بھارتی فیصلے پر عملدرآمد ہونے دیا جائے گا۔ چین نے ہمیشہ چین، بھارت سرحد کے مغربی سیکٹر میں چینی علاقے کی بھارتی انتظامی دائرہ اختیار میں شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ چین کا موقف کبھی تبدیل نہیں ہوا، بھارت نے لداخ کے حوالے سے یکطرفہ فیصلہ کر کے چین کی علاقائی سا لمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی حکومت سرحد کے معاملے پر اپنے قول و فعل میں عقل سے کام لے۔

جیسا کہ پہلے سے ہی ظاہر ہے کہ خطے میں مختلف ملکوں کی ہونے والی تما م حالیہ سرگرمیوں کا ایک بڑا ہدف ‘سی پیک’ منصوبہ بھی ہے۔ چین کی اس اقتصادی منصوبے کی تکمیل پاکستان کی معیشت کے لئے بھی دور رس فوائد کی حامل ہے اور خصوصا پاکستان کی حالیہ اقتصادی بدحالی کے حالات میں۔ جنوبی ایشیا میں ہونے والی یہ سرگرمیاں اور تبدیلیوں کی کوشش واضح طور پر چین کو اس کے دروازے کی چوکھٹ پر درپیش چیلنج کے مترادف ہے۔ کشمیر اور لداخ سے متعلق چین کا مختلف نوعیت کے ردعمل کا اظہار بھی اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان میں تمام ملکی فیصلوں کا اختیار قومی سلامتی کے اداروں ہی کو حاصل ہے۔ پاکستان حکومت کا ردعمل اب تک ایسا نہیں ہے جو انڈیا کے لئے کسی پریشانی، کشمیریوں کے لئے امید اور دنیا کے لئے ایسا پیغام ہو کہ پاکستان کشمیر میں انڈیا کی اس جارحیت پر کتنا حساس ہے اور اس معاملے میں سخت ردعمل کے حوالے سے نہایت سنجیدہ ہے۔ اگر انڈیا سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور سلامتی کونسل میں جانے کا اعلان کیا جاتا تو عالمی برادری اور عالمی اداروں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوتا۔ لیکن پاکستان دنیا کو ایسا احساس دکھانے میں اب تک ناکام نظر آ رہا ہے۔ دنیا کشمیر پر توجہ دیتی لیکن جب دنیا دیکھتی ہے کہ پاکستان معمول کی باتیں کر رہا ہے، اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو عالمی برادری بھی بے نیاز ہو جاتی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں انڈیا مکمل جنگی تیاری کے ساتھ آمادہ جنگ نظر آ رہا ہے۔ پاکستان نے بھی دفاع کے لئے تیاری کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے فوری بنیادوں پر سخت سفارتی سطح کے اقدامات نہ کئے جانے سے کشمیر میں جنگی تصادم کے امکانات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فی الحال تو یہی نظر یہ آ رہا ہے کہ کشمیر میں ایک محدود جنگ کے ذریعے پاکستان کو کمزور پوزیشن میں لانے کے بعد عالمی ثالث آ کر ثالثی کراتے ہوئے دونوں ملکوں کے ” امن مذاکرات” کرائیں گے جس میں انڈیا مذاکرات کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں پرامید ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).