آزادی کی حقیقت



برِصغیر پاک و ہند کو جیسے آزادی ملی یہ ذرا عجیب سی بات لگتی ہے۔ گاندھی جی کی اہنسا نے مسلح جدوجہد کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ (ویسے جناح صاحب کے ہاتھوں میں بھی کبھی کلاشنکوف نہیں دیکھی گئی)۔ کتابی حساب سے ان عظیم لیڈروں نے خانہ جنگی کے بغیر ہی انگریز سے آزادی حاصل کر کے کمال کر دکھایا۔ یہ امر تو واضح ہے کہ انگریز ی سرکار نے کالے ہندوستانیوں کو آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسی حیثیت دینے سے صاف انکار کر دیا تھا ورنہ شاید برِ صغیر کی آزادی کے ممتاز رہنما اس اعزاز سے انکار نہ کر پاتے۔ کانگرس نے تو ماونٹ بیٹن کو ’آزاد‘ بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنا کر اپنی نیت اور حقیقت کو آشکارا بھی کر دیا۔ لیکن اصل نقصان شخصیات سے نہیں، سامراجی اداروں کے صیح سلامت جاری و ساری رہنے سے ہوتا ہے، اور ہوا۔

پاکستان اور بھارت سامراجی انگریزی سلطنت کی جانشین ریاستیں ہیں۔ یہ کوئی سیاسی یا جذباتی بیان نہیں بلکہ زمینی تلخ حقیقت ہے۔ یہ فرق ضرور پڑا ہے کہ اب بورڈ پر سرِ عام نہیں لکھا ہوتا ”کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ منع ہے“۔ لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ اُس زمانے کی سامراجی سوچ سے آج تک کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ زمین پر نہیں رہتا۔ جناب آکار پٹیل نے بھارتی ریاست کا جو نقشہ کھینچا ہے، کوئی نقطہ بھی چھیڑے بغیر، زیر زبر کو زبرزیر کیے بنا، پاکستان پر بھی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔

The interest of the state and its organs is put above the interest of India ’s people۔ There is a background to this: Nehru inherited an aggressively expansionist imperial state with tentative borders۔ Its relationship with the citizen focused on taxation and law and order۔ This continued after 1947۔ Even today، where the state feels threatened by citizens demanding rights، it will not hesitate to put them down with lethal force۔

(Aakar Patel۔ Times of India ; 14 May 2017 )

اب ان مقامی حکمرانوں کا عوام سے تعلق قابض سامر اج کے قائم کردہ اداروں کی وساطت سے ہے۔ اگر شانتی سے آزادی کی درخواست کی جائے تو اتنی قربانی تو بنتی ہی ہے۔ یہی نہیں، یہ تمام ادارے اپنے اس تعلق پر فخر بھی کرتے ہیں۔ عدلیہ، فوج، پولیس اور تعلیم، ہسپتال، محکمہ جنگلات اور آبپاشی۔ پھر نئے شہرممبئی، کراچی، کولکتہ سے لے کر منٹگمری، لائل پور اور ایبٹ آبادوغیرہ۔ زمین پر اپنی حاکمیت کی یہ نشانیاں کسی بھی زمانے کے حکمرانوں کے لیے باعثِ فخرہوسکتی ہیں۔ لیکن اپنی سوچ کا انداز، دیسی حکمرانوں کی روح تک اتار دینا، یہ ہے انگریز بہادر کا اصل کمال۔ رسمی تعلق بھی اتنا مضبوط ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی افواج میں جو رجمنٹیں برطانوی فوج کا پس منظر رکھتی ہیں وہ آج بھی اُسے باعثِ فخر بلکہ غرور کا سامان سمجھتی ہیں۔ یہ تعلق ہم عدلیہ، پولیس، ہسپتال، تعلیم بلکہ ہر ادارے میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جو سامراجی بد روح حکمرانی کر رہی ہے، وہ جناب آکار پٹیل کے بیان میں واضح ہے۔

کلامِ شاعر بزبانِ شاعر کی صورت یہ ہے کہ کسی سی ایس ایس رنگروٹ سے اس خواہش کا اظہار کیا جائے کہ آپ تو یقینا عوام سے بھلا سلوک کریں گے۔ معیاری جواب ایک طنزیہ جمع حقارت بھری مسکراہٹ کے ساتھ یہ ملے گا۔ ”یہ لوگ؟! آپ انہیں نہیں جانتے۔“ ایک چور کو جب تھانے میں تشدد سہتے سات دن ہو گئے تو اے ایس پی صاحب نے تفتیشی ٹیم کو لعنت ملامت کرتے ہوئے خود اس نامی گرامی چور سے کہا ”کب تک یوں مار کھاتے رہو گے؟ بہتر یہی ہے کہ مجھے سب کچھ بتا دو۔ میں سزا بھی تھوڑی ہی دلواوں گا۔“ قیدی نے کہا ”صاحب آپ بالکل درست فرماتے ہو۔ لیکن ہفتہ ہو گیا ہے۔ نہانا دھونا تو کیا اچھا کھانا بھی پیٹ بھر کر نصیب نہیں ہوا۔“ اس پر صاحب نے خوش ہو کر اُسے اس کی مرضی کا کھانا کھلایا۔ نہانے دھونے کی اجازت دی۔ یوں لشک پشک کر جب قیدی پیش ہوا تو اُس نے کہا۔ ”لے بھئی صاحب بہادر: جے توں اے کھانڑا مینوں منوا لیا تے باقی دیاں چوریاں میں آپے دس دیاں گا۔“

اور اگر آپ کی اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو پھر گجرات کے ایک خاندان کا قصہ سُنایا جائے گا۔ جس میں بابا جب مرنے لگا تو اُس نے اپنے لڑکوں کو بُلایا اور اُنہیں کہا: ”مردا تے میں پیا ای آں۔ ایں کرو مینوں وڈھ چھڈھو تے مقدمہ مخالفاں تے کرا دیو۔“ اورآپ اس قوم سے بہتر سلوک چاہتے ہیں؟! صاحب کا ایک تمسخرانہ مُسکراہٹ کے ساتھ یہ سکہ بند جواب ہوگا۔ اتنی دیر میں سوال کنندہ کو بھی سمجھ آ چکی ہوتی ہے کہ اب صاحب کی شکل اور رنگ ضرور جنوبی ایشیائی باشندوں کی طرح کا ہے لیکن ان میں بدروح اُسی گورے کی ہے جو کتوں اور ہندوستانیوں کے لیے ایک جیسے خیالات رکھتا ہے۔

ایسے میں فیض کو داغ داغ اُجالاکے علاوہ کیا نظر آئے؟ جناب وجاہت مسعو د جس دو قومی نظریے کا اصل اطلاق چاہتے ہیں تو وہ کہاں سے ہو؟ آکار پٹیل چیختا رہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کے مفاد کو بھارتی عوام کے مفاد پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ ریاست کا عوام سے تعلق میں دو ہی چیزوں پر زور تھا۔ ٹیکس اور امن و امان۔ 1947 کے بعد بھی صورتِ حال یہی رہی۔ حتیٰ کہ آج بھی، جہاں ریاست اپنا حق مانگنے والے عوام سے خطرہ محسوس کرتی ہے تو اُسے وحشیانہ طاقت کے استعما ل سے دبانے میں اُسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آزادی کے بہتر سال بعد بھی، تمامتر ظاہری فرق کے باوجود برِ صغیرکے عوام کا استحصال اور تذلیل جاری و ساری ہے۔ اُسی سامراجی جوش و جذبے کے ساتھ؛ جس میں کتے اور مقامی آبادی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

بغیر مسلح جدوجہد کے، سامراجی اداروں کی توڑپھوڑ بلکہ تشکیلِ نو کیے بغیر حکمرانوں کی جلد کا رنگ تو بدل جاتا ہے، اورکچھ نہیں۔ آج کل جنوبی افریقہ کے عامی اس طریقہ ِ واردات کے ثمرات بھگت رہے ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی عظمت کو سلام کہ شانتی اور اہنسا کی راہ چُن کر کم از کم تیس سال کی خانہ جنگی اور لاکھوں انسانی جانوں کے خطرات سے اپنی قوم اور اپنے علاقے یا ملک کو بچا لیا۔

برِ صغیر میں امن کے پجاری گاندھی جی اور آئینی و قانونی ماہر قائدِ اعظم نے بھی آزادی مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل کرلی۔ لیکن آزادی کی دیوی کو اپنا خراج وصول کرنے سے نہ روک سکے۔ دس لاکھ اموات اور کروڑوں کی ہجرت۔ عظیم انسانی المیوں میں برِصغیر کا یہ المیہ خون سے ہی لکھا گیا ہے اور اسے یاد بھی خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ جب صدیوں کے ہمسایوں نے سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کر کے اپنے ماں جایاکو قتل کیا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے عوام کس کس صورت میں، کب تک اس پُر امن آزادی کا خراج دیتے رہیں گے۔ شاید اُسی سے ہم برِ صغیر کے رہنے والے کوئی سبق سیکھ سکیں۔ کیونکہ اپنے تجربات سے نہ سیکھنے کی تو ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).